آج کے کالمساجدہ صدیق

ایک تاریخی مباحث

ساجدہ صدیق
عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے،مادر گیتی ایسے اشخاص کو ہر روز جنم نہیں دیتی۔تاریخ کو ایسے شخص کے لیے مدتوں محوِمنتظر رہنا پڑتا تب جاکر کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے۔جس پر تاریخ ناز کرتی ہے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک آریہ کتب فروش مہاشے راج پال نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایک کتاب شائع کی۔ یہ کتاب سوامی دیانند کے ایک شاگرد نے تحریر کی تھی جو لاہور کے ایک اخبار ”پرتاب“ کے مدیر تھے۔ اس زمانے میں اس کتاب پر سب سے بڑی تنقید کی جاتی تھی کہ اس میں مبینہ طور پر قرآن کی آیات اور فرموداتِ پیغمبر کی غلط تاویلات کی گئی تھیں اور ان تاویلات کی بنیاد پر اس کتاب کی عمارت کھڑی کی گئی تھی۔ مصنف نے مسلمانوں کے ممکنہ ردِعمل سے بچنے کی خاطر اس کتاب پر اپنے بجائے پروفیسر پنڈت چمپو پتی لال کا نام بطور مصنف شائع کیا تھا تاکہ وہ قانونی کارروائی سے بچ سکیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کی جانب سے احتجاج اور عدالتی کارروائی شروع کی گئی اور بالآخر 6 اپریل 1929ء کو لاہور کے علم الدین نامی نوجوان نے کتاب کے ناشر مہاشے راج پال کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔
علم الدین پر مقدمہ چلایا گیا، ان کے وکلا میں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی شامل تھے،لیکن عدالت نے علم الدین کو موت کی سزا سنا دی جس پر 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں عملدرآمد کر دیا گیا۔ بعد ازاں مسلمانوں کے مطالبے پر علم الدین، جو اب عوام میں غازی علم الدین کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کی میت لاہور لائی گئی جہاں 14 نومبر 1929ء کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں لاہور ہی کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ علم الدین کی سزا پر عملدرآمد کے بعد اُن کی شخصیت پر متعدد کتابیں تحریر کی گئیں۔سنہ 1988ء میں لاہور کے ایک ناشر نے ظفر اقبال نگینہ کی ایک کتاب ”غازی علم الدین شہید“ شائع کی۔ یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ تھا جو ایک اخباری میگزین میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے۔ اس کتاب میں بعض ایسی سرکاری دستاویزات شائع کی گئی تھیں جو علم الدین سے متعلق عوام میں معروف واقعے سے متصادم تھیں۔ اس کتاب میں عدالتی کارروائی میں عینی شاہدین اور گواہان کے بیانات کی عکسی نقول شامل تھیں جن کی روشنی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے علم الدین پر راج پال کو ارداتاً قتل کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا عدالتی کارروائی کے دوران علم الدین نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے روبرو ایک بیان بلاحلفی داخل کیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ راج پال کے قاتل نہیں ہیں اور انہیں پولیس نے بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا ہے۔ علم الدین نے ایسا ہی ایک بیان 16 مئی 1929ء کو سیشن جج کے روبرو ریکارڈ کروایا (یہ بیان بھی بلاحلف دیا گیا تھا)۔ اس بیان میں علم الدین نے کہا کہ انہوں نے مجسٹریٹ کے روبرو جو بیان دیا ہے وہ اس پر قائم ہیں، یعنی انھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔علم الدین کا موقف تھا کہ پولیس شناخت پریڈ میں اُن کے علاوہ صرف ایک شخص کو پیش کیا گیا جو بوڑھا تھا، چنانچہ اس کیس کے گواہ آتما رام، جن سے علم الدین نے مبینہ طور پر قتل میں استعمال ہونے والا چھرا خریدا تھا، نے بغیر کسی تردد کے شناخت پریڈ کے دوران پہچان لیا اور یوں انہیں (علم الدین) ملزم سمجھ لیا گیا۔علم الدین نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جب مجسٹریٹ شناخت کے لیے آئے تو انہوں نے اُن سے اس بات کی شکایت بھی کی مگر مجسٹریٹ سمیت کسی نے اُن کی بات نہیں سنی۔ درحقیقت یہی وہ دو بیانات ہیں جن کی بنیاد پر بعض افراد کا خیال ہے کہ علم الدین نے راج پال کو قتل کرنے کے جرم سے انکار کیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر علم الدین نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا اور صحتِ جرم سے کبھی انکار نہیں کیا تو پھر ان کا مقدمہ لڑنے کے لیے بانی پاکستان محمد علی جناح کو کیوں وکیل بنایا گیا تھا۔محمد علی جناح نے عدالت کے روبرو علم الدین کے اس غیر حلفی بیان کے بجائے یہ دلیل دی تھی کہ علم الدین کم عمر ہے اس کی عمر 19، 20 سال کے لگ بھگ ہے اور پھر یہ کہ اس نے یہ جرم اس لیے کیا ہے کہ اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی اور اس نے غصے میں آ کر راج پال پر حملہ کیا تھا۔ اُدھرسیشن کورٹ نے علم الدین کے اس بیان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور علم الدین پر راج پال کے قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی۔ سیشن کورٹ نے علم الدین کو موت کی سزا سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کی یہ سزا برقرار رکھی، جس کے بعد اس سزا کے خلاف آخری اپیل پریوی کونسل میں ہوئی جہاں علم الدین کی جانب سے محمد علی جناح پیش ہوئے۔اس مقدمے کی کارروائی کے مطابق پریوی کونسل نے محمد علی جناح کی اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا کہ مجرم کی عمر 19، 20 سال ہے اور اس سے یہ جرم غصے کی حالت میں سرزد ہوا ہے۔ پریوی کونسل کا فیصلہ تھا کہ جناح کی بیان کردہ وجوہات مناسب اور معقول نہیں ہیں اور علم الدین نے یہ جرم قصداً کیا ہے۔پریوی کونسل نے عینی گواہان کی شہادت کی روشنی میں علم الدین کو راج پال کے قتل کا ملزم ٹھہرایا اور اسے سزائے موت دینے کا حکم سنایا۔ پریوی کونسل کے اس فیصلے کے بعد بکنگھم پیلس میں رحم کی اپیل دائر کی گئی جہاں شاہ ایڈورڈ ہفتم نے بھی اس سزا کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ظفر اقبال نگینہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے دو روز قبل علم الدین نے اپنے ایک دوست شیدا سے کہا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ راج پال کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت سے ڈر کر عدالت میں ارتکاب فعل سے انکار کیا، یہ غلط ہے، ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیاوی حیات عارضی ہے اور ہم سب کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے پھر میں کیونکر موت سے ڈر سکتا تھا۔ میرے لیے یہ خبر کہ پریوی کونسل میں میری اپیل نامنظور ہو گئی ہے انتہائی مسرت کا موجب ہے اور میں خوش ہوں کہ مشیت الٰہی نے چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے مجھے اس شہادت کے لیے منتخب کیا۔ظفر اقبال نگینہ کی کتاب میں جو دستاویزات شامل ہیں وہ بلاشبہ عدالتی ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان میں شامل علم الدین کے بیانات بلاحلف لیے گئے، اس لیے نہ انہیں عدالت عالیہ نے لائق توجہ سمجھا تھااور نہ ہی کوئی مورخ انہیں کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے۔
بقول ساغر صدیقی:
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

جواب دیں

Back to top button