خواتین کے خلاف جرائم کی صورتحال، آئین اور قوانین
ملیحہ سید
ریاست کا نظم و نسق چلانے اور ریاست کے ہر فریق کی ذمہ داریاں اور حقوق و فرائض کے تعین کے لیے ایک متفقہ دستور کی ہر قوم کو ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دستور (آئین) ریاست کے مختلف سٹیک ہولڈرز کے بیچ ایک عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئین پر من و عن عملدرآمد معاشرے میں امن و استحکام کو یقینی بناتا ہے اور انتشار، بے یقینی، لاقانونیت اور خانہ جنگی سے بچاتا ہے۔پاکستانی آئین تحریری شکل میں ہے، تاہم پاکستان کی آئینی تاریخ زیادہ روشن نہیں ہے۔ پاکستان کا وجود اگست 1947 میں ہوا جبکہ بدقسمتی سے پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں سکندر مرزا نے نافذ کیا۔ اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذ العمل کیا جو کہ 1969 تک قائم رہا۔ پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں 1973 میں بنا جو کہ چند آئینی ترامیم کے ساتھ آج تک نافذالعمل ہے۔پاکستان کے رائج الوقت آئین اور پینل کوڈ کے مطابق تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا آئینی اور بنیادی حق ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔ جس کی وجوہات مذہبی نہیں بلکہ سماجی پسماندگی ہے اور وہ سوچ کہ لڑکی پڑھ لکھ جائے گی تو نافرمان ہو جائے گی۔ آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔
پاکستان میں اگر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو پی آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق قریباً 23 ملین بچے بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، اس معاملے میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔ بلوچستان کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان پرائمری سکول کی عمر کی بارہ ملین لڑکیاں سکول نہیں آتی ہیں جبکہ اسی عمر کے دو ملین لڑکے سکول نہیں جاتے۔ چھٹی جماعت تک، 60 فیصد سے زیادہ لڑکیاں سکول سے باہر تھیں۔ اس کے مقابلے میں، 49فیصد لڑکے سکول نہیں جاتے۔ نویں جماعت میں صرف 13فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔ سکول جانے والے مرد اور خواتین کی تعداد ناقابل قبول ہے، لیکن لڑکیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں اور تاحال ہو رہی ہیں جبکہ کرونا وائرس نے اس صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔تعلیم کے حوالے سے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کی حوالے سے ہمارا معاشرہ آج بھی کسی نامعلوم خوف کا شکار ہے جبکہ مذہب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی لڑکا جس کی عمر 18 سال سے کم ہو اور لڑکی جس کی عمر 16 سال سے کم ہو رشتہ ازدواجیت میں نہیں بندھ سکتے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے مطابق بغیر رضامندی اور زبردستی کی شادی غیر قانونی ہے۔ مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا بلکہ چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں بہت عام ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ شادیاں مختلف مقاصد کے تحت کی جاتی ہیں، جس میں جائیداد کا حصول، اولاد، زمیندارانہ نظام اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔بہت بار یہ شادیاں چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے بھی کی جاتی ہیں۔ جب کہ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ ایسی کسی شادی کو کروانے والے افراد کو سزا دی جائے گی، جس میں 3 سے 5 سال کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ شامل ہے۔واضح رہے کہ پنجاب میں 1929میں لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 16سال مقرر کی گئی جسے چائلڈ میرج ریسرینٹ ایکٹ 1929کہاجاتاہے۔ اس وقت ملک میں کئی پارلیمان میں ایسی کئی درخواستیں زیر التوا ہیں جن میں بچیوں کے لیے شادی کی عمر اٹھارہ سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
صرف کراچی کی بات کی جائے تو عورتوں کے ریپ، معصوم بچوں کے قتل جیسے گھناؤنے جرائم اور واقعات کراچی کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بنتے جا رہے ہیں جہاں صرف سال 2022 کے دوران خواتین کے ساتھ واقعات میں اضافہ دیکھا گیا اور 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق جب ملک میں شرم ناک اور انسانیت سوز واقعات کی بات کی جائے تو سال 2022 کراچی کے لیے انتہائی دردناک اور لرزہ خیز ثابت ہوا، گزشتہ 12 ماہ کے دوران 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستان میں ہر 2 گھنٹے میں ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے، سزا صرف 0.2 فیصد بنتی ہے۔اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2017 میں عصمت دری کے 3327 واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں یہ بڑھ کر 4456 کیسز، 2019 میں 4573 کیسز، 2020 میں 4478 کیسز پر پہنچ گئے اور 2021 میں بڑھ کر 5169 کیسز تک پہنچ گئے۔2022 میں میڈیا نے ملک بھر میں عصمت دری کے 305 واقعات رپورٹ کیے۔ مئی، جون (91)، جولائی (86) اور اگست (71) میں 57 کیس رپورٹ ہوئے۔اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب میں مئی 2022 سے اگست 2022 تک ریپ کے قریباً 350 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن سال کے پہلے چار مہینوں کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں تھا۔