ایڈیٹوریل

اسرائیل کی غزہ پر ایٹمی حملے کی دھمکی

انتہا پسند اسرائیلی وزیر نے انتہائی احمقانہ اور دنیا کی تباہی کا منصوبہ بیان کرکے عالمی برادری کو ورطہئ حیرت میں مبتلاکردیا ہے۔ پاگل پن کا شکار اسرائیلی وزیر نے فلسطینیوں کے خلاف ایٹم بم کے استعمال کی آپشن کی بات کرکے اپنے مکروہ عزائم عالمی برادری کے سامنے آشکار کردیئے ہیں لہٰذا یہی وہ لمحہ ہونا چاہیے جب عالمی امن کے ٹھیکیدار جو اِس وقت اسرائیل کی حمایت مظلوم و بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کو درست قرار دے رہے ہیں، وہ صیہونیوں کے مذموم مقاصد کے خلاف اپنی حکمت عملی تبدیل کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوکر اسرائیل کا محاسبہ کریں، وگرنہ عالمی جنگ چھڑنے اور دنیا کی تباہی کے مناظر بھی دیکھنے کے لیے کوئی باقی نہ رہے، فی الحال تو اُمت مسلمہ یعنی تمام مسلمان ممالک عالمی اداروں اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جو خود مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے شراکت دار بنے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں، جب سے اسرائیل نے فلسطین پر بربریت کا آغاز کیا ہے تب سے ہی دنیا بھر کے عیسائی اسرائیلی سفاکیت کے خلاف سڑکوں پر ہیں، بلکہ اب امریکی یہودی بھی احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوگئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا ساتھ دینے والے ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں، جن ممالک میں عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دینے پر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ان کا ذکر طویل ہوگا، لہٰذا ماسوائے چند طاقتوں کے، جن کے مفادات اسرائیل کے ساتھ جڑے ہیں اور اُن کا واحد مقصد مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں کمزور کرنا ہے، وہ طاقتیں اسرائیل کی بربریت اور ایٹم بم چلانے کے عزائم سامنے آنے کے باوجود خاموش ہیں اور ظلم کی انتہاء کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کے لیے 14بلین ڈالر کی ملٹری ایڈپر امریکہ میں ہی ”شیم شیم“ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل فاسفورس بم بھی استعمال کررہا ہے، ہسپتالوں، رہائشی علاقوں، سکولوں غرضیکہ ہر مقام کو صہیونی فوج نے نشانہ بنایا ہوا ہے، جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کا اپنی بے بسی ظاہر کرنا اور عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا مظلوموں کی بجائے ظالم کا ساتھ دینا عالمی امن کومسلسل خطرے میں ڈال رہا ہے، اُمت مسلمہ کا صبر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، اِس لیے دنیا کو تباہی اور سانحات سے بچانے کے لیے بڑی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا پڑے گی، عجیب مضحکہ خیز منطق ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی موجود ہیں اور عالمی نقشے پر غاصبوں کے وجود کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود کشمیریوں کی نسل کشی بھی کروائی جارہی ہے اور فلسطینیوں کی بھی۔ دونوں جگہ قیامت صغریٰ برپا ہے، تیسری نسلیں اقوام متحدہ کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کررہی ہیں کہ اپنی قراردادوں پر عمل کرائیں مگر اِس کے باوجود یہ عالمی ادارہ بے بس اور لاچار ہے، اور ظاہر یہ ہورہا ہے کہ بڑی طاقتوں نے مسلمان ممالک کو کمزور کرنے اور تباہ و برباد کرنے کے لیے اِس ادارے کا سہارا لیا ہوا ہے، عراق، لیبیا، افغانستان سمیت کتنے ہی اسلامی ممالک ہیں جن پر حملہ آور ہونے کے لیے منٹوں میں قراردادیں منظور ہوئیں اور اگلے ہی لمحے اُن ممالک پربموں کی بارش کردی گئی۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج کے دور میں بھی عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں انصاف کرنے اور مظلوم کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں، صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحد ہیں، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا نظر نہیں آرہا، کشمیری اور فلسطینی اپنے پیاروں کے جنازے اُٹھارہے ہیں مگر اُن کے حوصلے جواں ہیں، لہٰذا راہ حق کے مجاہد جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے اور عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے چہرے دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے رہیں گے۔ تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو صہیونیوں نے جو سلوک عیسائیوں کے ساتھ کیا، اُن کا قتل عام کیا، اُن کی عبادت گاہیں نذر آتش کیں، مذہبی آزادی سلب کی اور انہیں نشان عبرت بنایا آج اُنہی ممالک کی حکومتیں صہیونیوں کو طاقت دینے کے لیے عسکری و مالی امداد فراہم کررہی ہیں بلکہ اپنی روش پر انہیں بظاہر افسوس بھی نہیں ہورہا۔ بہرکیف جوں جوں وقت گزر رہا ہے اسرائیل کی بربریت میں تیزی آرہی ہے یوں گماں ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی سے قبل زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کا قتل عام کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن صہیونیوں کا راستہ روکنے کے لیے اُمت مسلمہ کو متحد ہوکر راست قدم اٹھانا پڑے گا وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔

جواب دیں

Back to top button