پاکستان

سینئر ججز کی ججوں اور بیوروکریٹس کی پروموشن میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کی مخالفت

عدلیہ کے دو سینئر ججز نے ججز یا بیوروکریٹس کو ترقی دینے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے معلومات طلب کرنے کی مخالفت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ اچھا سروس ریکارڈ رکھنے والے بیوروکریٹ کو اس کی دیانت داری سے متعلق صرف انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر ترقی دینے سے نہیں روکا جاسکتا۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ججز کی تقرری میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رائے لینا کے عمل کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے یہ حکم انفارمیشن گروپ کے گریڈ 20 کے افسر طاہر حسن کی درخواست پر سنایا۔

اگست 2023 میں گریڈ 19 سے 21 تک بیوروکریٹس کو ترقی دینے والے سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کا اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس میں جن افسران کی ترقی کے بارے میں غور کیا گیا ان میں طاہر حسن بھی ایک تھے جنہیں گریڈ 21 میں ترقی دی جانی تھی۔

تاہم، شاندار سروس ریکارڈ کے باوجود انہیں ترقی دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس میں ان کی ’ساکھ اور دیانت داری‘ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ اس اجلاس کے دوران پہلی بار بورڈ کے سامنے انٹیلی جنس رپورٹس پیش کی گئیں، جسے نہ تو بورڈ ممبران اور نہ ہی درخواست گزار نے پہلے کبھی دیکھا تھا۔

عدالت نے کہا کہ افسر کو صرف ان رپورٹس کی بنیاد پر ترقی دینے سے انکار کیا گیا تھا حالانکہ اس کے پاس 1994 سے 2022 تک کے کیریئر کے دوران 13 انتہائی شاندار اور 22 بہت اچھی اسسمنٹ رہی ہیں۔

جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے نے اپنے حکم نامے میں لکھا ’ انصاف کے نظام کے لئے ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا انتہائی حیران کن ہے جس کے تحت ایک انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی افسر کے کیریئر کو خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے’۔

عدالت نے کہا کہ خاص طور پر ایسی رپورٹ جو کسی افسر کی ترقی کے لیے غور کرنے سے پہلے نہ تو اس کے محکمے کے سامنے آئی اور نہ ہی سی ایس بی کے ممبروں کے سامنے پیش کی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے انٹیلی جنس رپورٹس کی وجوہات پر تنقید کی اور انہیں آکسیمورونک قرار دیا کیونکہ ’ان رپورٹوں میں کچھ بھی دانشمندانہ بات نہیں لکھی گئی ہے‘۔

انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افسر کا کیریئر ’تسلی بخش‘ تھا لیکن وہ مالی طور پر بدعنوان تھا اور اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔’

تاہم، ان الزامات کو نہ تو کسی ثبوت سے ثابت کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم کی گئیں۔

آئی ایس آئی کی رپورٹ میں لگائے گئے دیگر الزامات میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک ایسے افسر ہیں جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button