امریکی پابندیاں: کیا پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر فرق پڑے گا؟
امریکا نے پاکستان کے چار اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی میں مدد فراہم کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ان اداروں نے بیلسٹک میزائلوں کی لانچنگ کے لیے استعمال ہونے والی خصوصی وہیکل چیسز تیار کرنے میں مدد کی۔
پابندی کا شکار ہونے والے اداروں میں اسلام آباد کا نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس اور کراچی میں تین ادارے، اختر اینڈ سن، ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اور روک سائیڈ انٹرپرائیزز شامل ہیں۔ امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع پر کارروائی کرے گا۔
پاکستان نے 19 دسمبر کو تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی پابندیوں کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیا۔ پاکستان کی سرکاری دفاعی ایجنسی نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس وزارت دفاع کے زیر انتظام ایک ادارہ ہے جو ملک کے میزائل ڈویلپمنٹ پروگراموں کا مرکز ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تخفیف اسلحہ و عدم پھیلاؤ کے امور کے ماہرسمجھے جانے والے سابق سفیر ضمیر اکرم نے ان پابندیوں کو ’امتیازی‘ لیکن ’بے معنی‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں پر پابندی لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا میزائل پروگرام ان پر منحصر نہیں۔ یہ پابندیاں امتیازی ہیں لیکن پاکستان کے لیے بے معنی ہیں کیونکہ اس شعبے میں ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہے۔
ضمیر اکرم کے مطابق یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کسی سرکاری ادارے پر پابندی لگائی گئی ہو۔ اس سے قبل سپارکو اور نیسکام پر بھی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔’
سابق وزیر دفاع جنرل ریٹائرڈ نعیم لودھی سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں سیاسی مقاصد پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ پابندیاں لگانے سے امریکہ کو کیا حاصل ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں محض امریکہ کا موڈ بتاتی ہیں، ورنہ جب ہم ان کی باتیں مان رہے ہوتے ہیں تو بڑی بڑی چیزیں بھی گزر جاتی ہیں اور پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔
نعیم لودھی نے کہا کہ یہ پابندیاں ملک کو فائدہ بھی پہنچاتی ہیں کیونکہ ایسی صورت حال میں ملک پھر متبادل ڈھونڈتے ہیں، یہ (اقدام) پاکستان کو مشرقی بلاک کی طرف دھکیل دے گا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں حالات کے پیش نظر امریکہ کو پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے چاہییں لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ پابندیاں کیوں لگائی گئیں؟ کیا اسے کوئی رنگ دے کر پاکستان کو سزا دی جائے گی؟ کسی کو اسے آسان نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ سیاسی مقاصد پر مبنی پابندیاں ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا یہ پابندیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر اثرانداز ہوسکتی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پابندیوں کے باوجود کامیاب ایٹمی پروگرام کا تجربہ کیا، میزائل ٹیکنالوجی ایٹمی ٹیکنالوجی سے زیادہ میسر ہے۔ اگر پابندیوں پر ہم ایسا کر سکتے ہیں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، صرف بدمزگی پیدا ہو گی۔‘
دفاعی و جوہری امور تجزیہ کار شیریں مزاری نے گفتگو میں کہا کہ یہ پابندیاں اسرائیل کی ایما پر کی جا رہی ہے جن سے پاکستان پر زور ڈالا جائے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی پابندیاں ہمارے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گی کیونکہ ہم اپنے کسی بھی میزائل کے لیے امریکی یا مغربی ٹیکنالوجی کے کسی بھی جزو پر انحصار نہیں کرتے۔
شیریں مزاری ٓ نے کہا ’وائٹ ہاؤس کا یہ کہنا کہ ہمارے طویل فاصلے والے میزائل امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں، یہ بے وقوفی ہے اور واضح طور پر غلط معلومات پھیلانا ہے، لیکن اس کا براہ راست تعلق بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہ کرنے والے ملک اسرائیل سے جڑا ہوا ہے جو پاکستان کی جوہری طاقت سے خوفزدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر دو معاملات پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمارا میزائل ترقیاتی پروگرام روکنا اور محدود کرنا اور اسرائیل کو تسلیم کرنا۔ یہ نئی بات نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے یہ مطالبات مسلسل کیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں واقع تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس صورت حال کو ’بڑی پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔
کوگل مین کے مطابق این ڈی سی کوئی نجی کمپنی نہیں ایک سرکاری ادارہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ریاست کو پابندیوں کا براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
رواں برس اکتوبر میں امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی نے مبینہ طور پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا