آج کے کالممحمد انور گریوال

”میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی“

محمدانور گریوال
معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہیں، جن کی شخصیت کا کوئی ایک پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے جبکہ کئی دوسرے بہت نمایاں گوشے عوام سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ سید سلمان گیلانی کا شمار بھی انہی میں ہوتاہے۔ دنیا اُنہیں ایک مزاح گو شاعر کے نام سے جانتی اورپہچانتی ہے، جس تقریب یا محفل میں چلے جائیں، رنگ بھر دیتے ہیں، یا یوں کہیے کہ محفل لوٹ لیتے ہیں۔ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاں تخیل کی فراوانی عطا فرمائی ہے وہاں شعر پڑھنے کا بھی اُن کا اپنا ہی اسلوب ہے، نہایت دلآویز آواز کے ساتھ جب ترنم سے شعر پڑھتے ہیں، اور سامعین و حاضرین کو ساتھ تالیاں بجانے پر مجبور کردیتے ہیں تو سماں بندھ جاتا ہے، واہ واہ اور تحسین کے نعروں سے ماحول گونجنے لگتا ہے۔ ’کرِیز‘ سے باہر نکل کر کھیلنے کی عادت سے سامعین کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ (یعنی وہ اپنا کلام عموماً کھڑے ہو کر اور سٹیج پر چل پھر کر ہی سناتے ہیں)۔
زیرِ نظر کتاب ”میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی“ میں سید سلمان گیلانی کا مکمل طور پر دوسرا رُخ دکھائی دیتا ہے، جو کہ عام لوگوں سے اوجھل تھا، اگرچہ اِس کتاب میں لکھے گئے تمام واقعات و مضامین ایک خاص مذہبی ماحول کی عکاسی کرتے ہیں، جن لوگوں کے ساتھ اُن کا وقت گزرا ہے، وہ یقینا سلمان گیلانی کے دوسرے رُخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔اس طرح بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ ایک خاص سیاسی اور مذہبی نظریہ رکھتے ہیں، اول و آخر اُس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حلقے میں اُن کے دونوں پہلو عیاں ہیں اور عوامی حلقے میں اُن کی مزاحیہ شاعری کا ہی ذکر پایا جاتا ہے۔
سید سلمان گیلانی نے اپنے مختلف کالموں او ر مضامین کے ذریعے یہ کتاب ترتیب دی ہے، جسے کسی تبصرہ نگار کی نگاہ میں نہیں بلکہ خود کتاب کے سرِ ورق پر ”خود نوشت“ قرار دیا گیا ہے۔ وقتاً فوقتاً لکھے گئے کالم اور مضامین تو موجود تھے، دو برس قبل ”کوووڈ“ کے دنوں میں جب احتیاط و پرہیز اور مجبوری کی وجہ سے گھر سے نکلنا کم ہو گیا تو اُنہوں نے اپنی یاد داشتوں کو کتابی شکل دینے کی ٹھانی اور اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ کسی بھی فرد کے دل و دماغ میں اگر کوئی غیر معمولی یادداشتیں موجود ہوں تو اُن کا اظہار کرنا اور ان کی ترتیب لگانا اُس شخص کا اخلاقی فرض ہوتا ہے، سید سلمان گیلانی نے یہ فرض بڑے احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ یہ کتاب جہاں بچپن سے اب تک سید سلمان گیلانی کی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، وہیں اُن کی بہت سی یادیں اُنہوں نے اکابرین سے اخذ کی ہیں۔
یہ کتاب مجموعی طور پر ایسے واقعات پر مشتمل ہے، جو عام زندگی میں رونما نہیں ہوتے، اَن ہونی باتیں جو بظاہر حقیقی زندگی میں ناممکن دکھائی دیتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر وہ باتیں آشکار ہوتی ہیں۔ تصوف کے یہ سلسلے ہر کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اِن کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہوتے ہیں۔ یہاں لکھے گئے واقعات چونکہ صدیوں پرانی کتابوں سے اخذ نہیں کئے گئے، بلکہ بعض کے سید سلمان گیلانی خود چشم دید گواہ ہیں، یا خود یہ واقعات انہی کو پیش آئے ہیں، یا پھر زیادہ تر انہوں نے اپنے والدِ بزرگوار سید امین گیلانی سے روایت کئے ہیں، چند واقعات کے راوی کچھ دیگر بزرگ بھی ہیں۔ سلمان گیلانی نے تصوف کی دنیا میں اپنی محنت یا کوشش سے قدم نہیں رکھا، یہ راستہ انہیں وراثت میں ملا ہے، یوں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے بچپن سے ہی وہ بھی راہِ سلوک کے مسافر ٹھہرے، زندگی بھر یہ سفر جاری رہا۔
اُن کے مضامین میں سب سے زیادہ تذکرہ تو خود اُن کے والدِ محترم سیدامین گیلانیؒ کا ہی ہے، انہی کی انگلی پکڑ کر سلمان گیلانی نے یہ سفر شروع کیا، جس کے ذریعے انہیں وقت کے قطب و ابدال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کے علاوہ سب سے زیادہ واقعاتِ عقیدت خواجہ خان محمدؒ کے بارے میں ہیں۔ جن سے سلمان گیلانی کو رہنمائی حاصل کرنے کے بے شمار مواقع بھی میسر آئے۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ اور مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ عقیدت و محبت کے بھی بہت سے واقعات کتاب کا حصہ ہیں۔ امیرِ شریعت مولانا عطا ء اللہ شاہ بخاری کے تذکرے بھی کتاب میں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا عبداللہ درخواستی اور دین پور شریف کا بھی خوب ذکر موجود ہے۔مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا شاہ احمد نورانی پر بھی مضمون لکھا گیا ہے۔ مولانا مفتی محمود اور مولانا یوسف لدھیانوی سے عقیدت کا تذکرہ بھی ہے۔اِن کے علاوہ بھی بہت سے بزرگوں کے واقعات کتاب میں درج ہیں۔
سید سلمان گیلانی نے بزرگوں کے ساتھ ساتھ کچھ ہم عصروں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں مولانا فضل الرحمن بہت نمایاں ہیں۔ مولانا چونکہ آج کل کی سیاست کے میدان میں مصروفِ عمل ہیں، اِس لیے سیاسی مخالفین کے مختلف الزامات وغیرہ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ مولانا خود بھی ہر ناقد اور مخالف کو لاجواب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم سید سلمان گیلانی نے کئی واقعات ایسے تحریر کئے ہیں، جن سے مولانا کی دانش اور معاملہ فہمی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ مولانا مفتی محمود سے مولانا فضل الرحمن تک سید امین گیلانی سے سید سلمان گیلانی کے ذاتی مراسم موجود تھے، ایک دوسرے سے محبت اور لحاظ کا تعلق تھا۔ کتاب پر مولانا فضل الرحمن کا تبصرہ بھی موجود ہے۔
پوری کتاب عشقِ مصطفیﷺ، ختمِ نبوت اور واقعاتِ تصوف سے بھری پڑی ہے۔ ختمِ نبوتﷺ کے بہت سے واقعات اور جلسوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حالیہ ادوار میں غیر ممالک کے توہینِ رسالتﷺ کے واقعات پر تنقیدی مضامین موجود ہیں۔سید سلمان گیلانی کی تحریر جہاں یاد داشتوں پر مشتمل ہے وہاں ادب کی چاشنی بھی تحریر کو مزید لطیف اور دلچسپ بنا دیتی ہے، مناسب جگہ پر مناسب الفاظ کا استعمال کرنے سے معلوم ہوتا ہے شاعری ہی ان کا موضوع نہیں، نثر میں بھی انہیں کمال حاصل ہے۔ ابتدائی مضامین میں اُن کے اندر کا مزاح نگار بھی انگڑائی لیتا ہے، لیکن کتاب کا موضوع شاید اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ عنوان کی مناسبت سے بہت سے مواقع پر وظائف بھی بتائے گئے ہیں، خاص طور پر درود پاک کی اہمیت اور عملی نتائج بیان کئے گئے ہیں۔ آخری مضامین میں انہوں نے مجذوب لوگوں کے تصوف میں مقام پر مبنی واقعات درج کئے ہیں۔ کتاب میں سینیٹر طلحہ محمود اور پبلشر علامہ عبدالستار عاصم کے تبصرے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب ”قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل“ نے شائع کی ہے۔ انتساب کچھ اس طرح ہے؛ ”میں اپنی یادداشتوں کا مجموعہ اپنے مرحوم کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے منسوب کرتا ہوں، جن کی محبتوں، شفقتوں کے زیرِ سایہ میری تربیت ہوئی، خصوصاً اپنے والدِ محترم سید امین گیلانی جن کی شخصیت میرا آئیڈیل ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، دعا گو، سید سلمان گیلانی“۔ کتاب 511صفحات پر مشتمل ہے۔

جواب دیں

Back to top button