کنٹینرز کی دیوار کے سامنے شادی کا فوٹو شوٹ کروانے والا جوڑا
تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد نے گذشتہ چند دنوں سے ’کنٹینر سٹی‘ کا روپ دھارا ہوا ہے۔ ذرائع آمد و رفت مسدود ہونے کے باعث شہریوں کے روزمرہ معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
ویسے تو قریب 25 لاکھ آبادی والے اس شہر کو ’کنٹینر سِٹی‘ کا نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اگست 2024 میں دیا تھا مگر یہاں رہنے والے شہریوں کو وقتاً فوقتاً اس اصطلاح کو استعمال کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق احتجاج کرنے والوں کو ڈی چوک پہنچنے سے روکنے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں 700 کنٹینرز کے ذریعے سڑکوں کو بلاک کیا گیا ہے، یعنی ایک اندازے کے مطابق 220 مربع کلومیٹر کے اسلام آباد کے شہری علاقے میں ہر ایک مربع کلومیٹر کے فاصلے پر تین کنٹینر کھڑے کیے گئے ہیں۔
سڑکوں کی اسی بندش کے باعث جہاں بہت سے شہری نالاں ہیں وہیں چند ایسے بھی ہیں جو اسی کرائسس جیسی صورتحال کو اپنے لیے یادگار لمحات میں تبدیل کر رہے ہیں۔
اسی صورتحال کے بیج گذشتہ دو دنوں سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ایسے نوبیاہتا جوڑے کی تصاویر وائرل ہیں جنھوں نے اپنے ولیمے کا فوٹو شوٹ کنٹینرز کے سامنے کروایا ہے۔
یہ خولہ اور قاسم ہیں جن کا کنٹینرز کے سامنے شوٹ کروانے کا ’مشکل وقت میں لیا گیا فیصلہ‘ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
قاسم ایک کینیڈین کمپنی میں بطور بزنس ڈویلپمنٹ مینیجر کے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ خولہ ایک سکول ٹیچر ہیں جن کی حال ہیں میں شادی ہوئی ہے۔
خولہ بتاتی ہیں کہ ’ہماری مہندی، بارات اور ولیمہ، یعنی تینوں فنکشنز اسلام آباد میں ہونا تھے۔ مگر موجودہ صورتحال کے باعث مہندی کی تقریب کو جلدی ختم کرنا پڑا۔ بارات کے روز جس جگہ پر ویڈنگ شوٹ ہونا تھا، ہم راستے بند ہونے کی وجہ سے وہاں بھی نہیں پہنچ سکے چنانچہ ہم نے بارات کا شوٹ اپنے ایک دوست کے ڈرائنگ روم اور باغیچے میں کیا۔ اگلے روز جب ہمارا ولیمہ تھا تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’آپ قدرتی طور پر اپنی شادی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ مہندی کا شوٹ یہاں ہو، ولیمے کا وہاں ہو گا اور بارات کا کسی اور جگہ۔ اسی طرح ہم نے بھی بہت سی پلاننگ کی تھی۔‘
’آخری روز ہم اس جگہ کے لیے نکلے جہاں ولیمے کا شوٹ ہونا تھا تو راستے بند تھے اور بہت سے کنٹینرز تھے۔ چنانچہ ہم نے سوچا کہ آج کنٹینرز کے سامنے ہی شوٹ کرتے ہیں۔ یاد تو رہے کہ یہ ہوا تھا ہماری شادی پر۔‘
قاسم کے مطابق ’اسی ساری صورتحال میں ہم نے اپنی شادی کے فنکشنز کو کیا۔ بہت سے مہمان بھی پہنچ گئے تھے چنانچہ یہ مناسب نہیں تھا کہ ہم اپنی شادی کو مؤخر کریں۔‘
قاسم بتاتے ہیں کہ ان کے ویڈنگ فوٹو گرافر نے انھیں مشورہ دیا کہ اگر وہ کنٹینرز کے سامنے شوٹ کرواتے ہیں تو یہ شادی یادگار بن جائے گی۔
’نہ ہم نے اور نہ ہی ہمارے فوٹو گرافر نے یہ سوچا تھا کہ یہ تصاویر اتنی وائرل ہو جائیں گی۔ ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ہم اتنے وائرل ہو جائیں گے۔ باہر نکلتے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے اپنی ویڈیو دیکھی ہے۔ لوگ ہمیں دیکھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ وہی ہیں جن کا کنٹینرز کے سامنے شوٹ ہوا تھا۔‘
قاسم کہتے ہیں کہ ’ہمارے فنکشنز متاثر ہوئے، ہماری شادی کے کپڑے خراب ہوئے مگر ہم نے آخر میں ایک ایسی چیز ڈھونڈ لی جس نے ہماری شادی کو یادگار بنا دیا۔‘