تحریک انصاف کا قافلہ سرینگر ہائی وے پر: مظاہرین اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں جاری

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں اتوار کی دوپہر صوبائی دارالحکومت پشاور سے روانہ ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا قافلہ تمام تر رکاوٹیں عبور کرتا ہوا اب وفاقی دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ سرینگر ہائی وے (کشمیر ہائی وے) پر سیکٹر جی 11 کے مقام پر موجود ہے جہاں مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین کی ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جا رہی ہے جبکہ مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف پشاور کے صدر عرفان سلیم نے اب سے کچھ دیرقبل بتایا کہ فقیر ایپی روڈ کو سرینگر ہائی وے سے ملانے والی جنکشن پر اُن کی جماعت کے کارکنان کی سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی اہلکار پی ٹی آئی کارکنان پر بہت زیادہ شیلنگ کر رہے ہیں جبکہ گولیاں بھی برسائی جا رہی ہیں۔ عرفان سلیم نے بتایا کہ بشریٰ بی بی اس وقت گاڑی میں جبکہ علی امین گنڈاپور کنٹینر پر سوار ہیں اور دونوں قافلے کے ابتدائی حصے سے تھوڑا پیچھے ہیں۔
یاد رہے کہ اس قافلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی بھی موجود ہیں۔ قافلے میں موجود تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ہر صورت اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچیں گے جبکہ ان کا بڑا مطالبہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی ہے۔
اسلام آباد میں سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر رات گئے وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت دارالحکومت میں فوج کو طلب کر لیا ہے۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان میمن نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر فوج کو طلب کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں فوج طلب کیے جانے سے کچھ دیر قبل ہی پیر کو رات گئے سرینگر ہائی وے پر سکیورٹی پر تعینات تین رینجرز اہلکاروں کو ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا ہے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق یہ واقعہ جی ٹین کے سگنل کے قریب پیش آیا جس میں تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ چند ہی گھنٹوں میں تین مرتبہ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی جس کے دوران انھوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ہوئے حملوں میں اب تک دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق متعدد پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہیں۔
تحریک انصاف کے قافلے کے اسلام آباد میں داخل ہونے کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر ڈائریکٹ فائرنگ کے الزامات عائد کیے گیے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے الزام عائد کیا ہے کہ قافلے میں موجود پی ٹی آئی کارکنان کی براہ راست فائرنگ سے ایک رینجرز اہلکار سمیت چھ سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے بھی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے اپنے متعدد کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
ڈی چوک پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیر کی شب وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو سنگجانی میں احتجاج کرنے کی آفر دی گئی تھی اور اس سلسلے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اڈیالہ جیل میں عمران خان سے دو ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی جانب سے اجازت مل گئی تھی ’لیکن شاید عمران خان سے اوپر بھی کوئی لیڈرشپ آ گئی ہے جس نے یہ بات ماننے سے انکار کیا ہے۔‘
تحریک انصاف کا قافلہ جب رات گئے اسلام آباد کے مرکزی علاقے تک پہنچنے کی غرض سے چونگی نمبر 26 پہنچا تو اس موقع پر شدید شیلنگ اور پتھراؤ ہوا۔
پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدر ارباب عاصم نے بی بی سی کو بتایا کہ سخت مشکلات کے بعد 26 نمبر چونگی سے تمام رکاوٹیں ہٹا لی گئی تھیں جس کے بعد قافلہ مرکزی سرینگر ہائی وے کی جانب بڑھا۔
دوسری جانب نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو توقع تھی کہ یہ لوگ اسلام آباد تک پہنچیں گے اور اس حوالے سے حکمتِ عملی تیار کی گئی مگر اس وقت بشریٰ بی بی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر یہ ڈی چوک کی جانب بڑھتے ہیں تو حکومت کے پاس طاقت کا استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ’پولیس کے لیے گولی کا جواب گولی سے دینا آسان تھا مگر پولیس نے گولی کا جواب ربڑ بلٹ سے اور آنسو شیل سے دیا۔‘ تاہم انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مظاہرین کو ڈی چوک نہیں جانے دیا جائے گا۔