بین الاقوامیخبریں

پابندی کے باوجود جرمنی کی سڑکیں فلسطینیوں کے حق میں نعروں سے گونجتی رہیں

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہزاروں شہری فلسطینیوں کے حق میں اور غزہ پر مسلسل اسرائیلی بمباری کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرہ ہفتے کے روز کیا گیا۔

جرمن پولیس نے ابتدائی طور پر ان مظاہرین کی تعداد کا محتاط اندازہ ساڑھے تین ہزار لگایا لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ ابھی لوگ آرہے ہیں اور مظاہرین میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔بعد ازاں پولیس نے مظاہرین کی تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بتائی۔ یہ تعداد منتظمین کی توقع سے بھی کہیں زیادہ رہی۔

واضح رہے جرمن پولیس نے جمعرات کے روز فلسطینیوں کے حق میں اس طرح کا مظاہرہ کرنے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی تھی کہ اس سے تصادم کا خطرہ ہے۔ تاہم جرمن شہری اس پابندی کے باوجود بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔

جرمن دارالحکومت کی سڑکوں پر فلسطینیوں کی حمایت میں نکلنے والے مظاہرین بالکل پر امن تھے، بہت سے مظاہرین اپنے بچوں اور خاندانوں کے ساتھ شریک احتجاج ہوئے اور ‘ غزہ کو بچاو’ ۔ فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرو’ ‘ جنگ بندی کرو ‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

جرمن مظاہرین نے فلسطینیوں کے حق میں کیے گئے اس بڑے مظاہرے کے دوران مختلف نعروں اور مطالبات پر مبنی کتبے یا بینر بھی اٹھا رکھے تھے۔ بہت ساروں نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور فلسطین کی آزادی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔

سنٹرل برلن کے اہم چوراہے پر جمع ان مظاہرین میں ایسے بھی تھے جنہوں نے فلسطینیوں کی شناخت بن چکے کیفیہ کو گلے میں حمائل کر رکھا تھا اور مظاہری میں شامل پاکستانی خواتین کارکنوں نے سکارف پہن رکھے تھے۔

اس مظاہرے کی اپیل متعدد تنظیموں اور سماجی گروپوں نے دی تھی۔ منتظمین کا اندازہ تھا کہ مظاہرین کی تعداد دو ہزار تک رہے گی، لیکن پولیس نے یہ تعداد دس ہزار سے بھی زیادہ بتائی۔ اس بڑے مظاہرے کو کنٹرول کرنے کے لیے جرمن پولیس کو 1400 پولیس اہلکار تعینات کرنا پڑے۔

اس پرامن اور کامیاب احتجاجی مظاہرے کو ہونے دینے پر مذہبی خیالات کی حامی جرمن سیاسی جماعتوں نے وزیر داخلہ نینسی فائزر پر سخت تنقید کی ہے۔ تنقید کرنے والوں کا موقف تھا کہ مظاہرے پر جرمن چانسلر اولف شلز کی طرف سے جمعرات کے روز ہی پیشگی پابندی لگا دی گئی تھی۔

اس کے باجود ان لوگوں کو کیوں سڑکوں پر آنے کی اجازت دی گئی، تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ لوگوں کو روکنے سے ہجوم کو کنٹرول کرنا مشکل ہو سکتا تھا۔

جواب دیں

Back to top button