سانحہ کرم: ’ایسا لگ رہا تھا آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 38 افراد ہلاک جبکہ 19 زخمی ہوئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے بی بی سی کے نامہ نگار افتخار خان کو 38 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ زخمیوں کو ٹل اور پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
جمعرات کو یہ واقعہ لوئر کرم کے علاقے مندروی میں اس وقت پیش آیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر اس سڑک پر حملہ ہوا جسے حال ہی میں کھولا گیا تھا۔
مندروی کے بنیادی مرکزِ صحت میں تعینات ڈاکٹر محمد نواز نے بتایا کہ وہاں اب تک 33 لاشیں لائی گئی ہیں جن میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ لاشیں اور آٹھ زخموں کو علیزی کے ہسپتال میں لایا گیا ہے۔
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘
فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے بتایا کہ ’ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے۔‘
عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچھات شامل ہیں۔
عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھردوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔
یاد رہے اسے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر ویگن قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند تھی۔
سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔‘
سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ اس قافلے میں شاید ایک خاتون ڈاکٹر یا نرس تھی اور وہ دوڑ دوڑ کر زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘