تھائی لینڈ میں تھانے پر بندروں کا حملہ
وسطی تھائی لینڈ میں پولیس نے بتایا کہ انہوں نے ہفتے کے آخر میں خود کو اپنے تھانے میں بند کر لیا جب 200 مفرور بندروں کے ایک خطرناک اور بے قابو غول نے قصبے میں ہنگامہ مچا دیا۔
لوپبوری کے باشندے طویل عرصے سے بندروں کی بڑھتی ہوئی اور جارح آبادی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں اور حکام نے بے قابو بندروں کے گروہوں کو روکنے کے لیے خصوصی احاطے بنائے ہیں۔
لیکن ہفتے کے روز 200 کے قریب بندر وارد ہو گئے اور شہر میں ہنگامہ کر دیا جن میں سے ایک غول مقامی تھانے میں جا گھسا۔
پولیس کپتان سومچائی سیڈی نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ دروازے اور کھڑکیاں بند ہوں تاکہ وہ کھانے کے لیے عمارت میں داخل نہ ہوں۔”
نیز کہا کہ انہیں خدشہ تھا کہ غارت گر بندر پولیس دستاویزات سمیت املاک کو تباہ کر سکتے تھے۔
لوپبوری پولیس نے اتوار کو فیس بک پر کہا کہ بندروں کو روکنے کے لیے ٹریفک پولیس اور محافظ کی ڈیوٹی پر مامور افسران کو بلا لیا گیا۔
مقامی میڈیا کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیر کو تقریباً ایک درجن درانداز بندر بے باکی سے بدستور تھانے کی چھت پر بیٹھے تھے۔
گلیوں میں بے بس پولیس اور مقامی حکام کھانے کی چیزوں کی طرف راغب کر کے بدمعاش بندروں کو پکڑنے کے لیے کام کر رہے تھے۔
اگرچہ تھائی قوم اکثریتی بدھ مت کی پیروکار ہے لیکن اس نے اپنے بدھ مت کے دور سے پہلے کی ہندو روایات کو طویل عرصے سے اپنے طور طریقوں میں ضم کر لیا ہے۔
نتیجتاً ہندوؤں کے بہادر بندر نما دیوتا ہنومان کی بدولت بندروں کو تھائی دلوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس بندر نے رام کی عزیز بیوی سیتا کو ایک شیطانی بادشاہ کے چنگل سے بچانے میں اس کی مدد کی۔
لوپبوری کے وسط میں پرا پرنگ سام یوڈ مندر کی قریبی سڑکوں پر ہزاروں بےخوف بندر راج کرتے ہیں۔
یہ قصبہ 1980 کے عشرے کے اواخر سے مکاک بندروں کی آبادی کے لیے پھلوں کی سالانہ دعوت کا اہتمام کرتا ہے جو جزوی مذہبی روایت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز ہوتی ہے۔
لیکن ان کی بڑھتی ہوئی تعداد، ہنگامہ آرائی اور لڑائیوں نے انسانی آبادی کے ساتھ ایک مشکل بقائے باہمی کو تقریباً ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔
لوپبوری کے حکام نے نس بندی اور نقلِ مکانی کے پروگراموں کے ساتھ انسانوں اور میکاک بندروں کی جھڑپیں روکنے کی کوشش کی ہے۔