سپریم کورٹ نے گزشتہ روز انتخابات کے حوالے سے کیس کو نمٹاتے ہوئے اپنے حکم نامے میں کیس کے پس منظر پر بھی روشنی ڈالی۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ’قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی۔ وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا۔‘
حکم نامے میں کہا گیا کہ ’ہم نے صدر کی ایڈوائس کے بغیر پی ٹی آئی حکومت میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر از خود نوٹس لیا اور سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی دور میں قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ غیر آئینی تھا۔ اس وقت کے وزیر اغظم اور صدر مملکت نے جو کیا وہ ان کے اختیار میں نہیں تھا۔‘
’اس فیصلے میں دو ججز نے صدر مملکت کے نتائج پر بات کی۔ اس فیصلہ میں کہا گیا کہ عوامی منتخب نمائندوں کو عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ’حادثاتی طور پر پاکستان کی تاریخ میں پندرہ سال آئینی عملداری کا سوال آیا،اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نہ صرف آئین پر عمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کو دیکھیں آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑے گا ۔