آج کے کالممحمد عثمان کھوکھر

عالمی مفادات اور غنڈے

محمد عثمان کھوکھر
آسمان کا رنگ لال ہو چکا ہے،آپ کو کیا اب بھی نیلا نظر آتا ہے؟ گر ایسا ہی ہے، تو پھر کوئی ضرورت نہیں آپ کے سامنے تاریخ کے اوراق پلٹنے اور کچھ بتانے کی،یقین جانیں جس قدر آپ کا دل آج فلسطین کے لیے پریشان ہے،اس طرح میرا بھی ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں معصوم نہتے بے موت مر رہے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں اور صرف مسلمانوں پر ہی نہیں ہر مظلوم اور محکوم پر آئے روز کا یہی قصہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا مسلم کش فسادات میں جنونیت کے مارے دہشت پسند ہندوں نے ظلم،بربریت شیطنت اور فسطائیت کی جو مثال پیش کی تھی میرا دل اس وقت بھی رویا تھا لیکن کیا کیا جائے۔ خون کی ہولی ہر بار متعین وقت میں مخصوص مفادات کے لیے اس سے پہلے کئی بار کھیلی گئی اور کھیلی جاتی رہے گی۔۔۔
کیا ہندوستان اور کیا فلسطین۔۔۔
اس کی کوئی اور وجہ نہیں بس مفادات ہیں
اقتدار لالچ اور سیاست کے مفادات نے ازل سے امن پسند دنیا کو نفرت اور شدت پسندی کا سبق دیا ہے، جس کی مثال ہر دور میں نمایاں رہی ہے۔ در حقیقت اقتدار لالچ اور سیاست و مذہب کے مفادات کے حصول میں سازشیں جنم لیتی ہیں اور یہی سازشیں اک خاص وقت میں شدت پسندی اختیار کرتے ہوِئے سیاسی مذہبی لسانی نظریاتی اور ریاستی غنڈوں کو جنم دیتی ہیں، جو امن عالم اور انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں،وہ اپنی تخریب کاریوں میں کبھی مذہب کو استعمال کرتے ہیں اور کبھی وطن پرستی جیسے جذبوں کو۔
یہ مفادات ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا اسی مفاداتی فتنے کی شکار ہے۔امریکہ سے لیکر روس، انڈیا، چائنہ،پاکستان حتیٰ کہ افریقہ، ایشیاء اور مغرب میں بسنے والے تمام ممالک و امراء اسی کا شکار ہیں۔ مگر ان عالمی سازشی غنڈوں نے عوام عالم کو جمہوریت اور صدارتی نظام اورمصنوعی آزادی میں یوں جکڑ رکھا ہے،ان حالات و واقعات کے باطنی کرداروں کی چنگیزیت پر کیا خوب تبصرہ ہے حضرت اقبال کا۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری
ان سازشی مفاداتی غنڈوں کی عیاری مکاری پر کیا کہئے بس اتنا جان لیں کہ تاریخ عالم کے اوراق کو موٹے موٹے عدسوں والی عینکوں کے بغیر بھی کنگالئے تو آپ کو بڑی بڑی جنگوں اور لڑائیوں میں اقتدار کے سیاسی مفادات اور کہیں مسند امامت کی حرص میں مذہبی مفادات نظر آئیں گے جو حقیقی معنوں میں مل بیٹھ کر حل ہو سکتے تھے اور جوہر انسانیت کا خزانہ بچ سکتا تھا، مگر مفادات پسند سیاسی بونے دراصل خودساختہ سازشی عوامی غنڈے اپنے مفادات کی خاطر خود کو چھوڑ کر ہر شے استعمال کر گئے۔اصول نظریہ،مذہب، ریاست اور حتیٰ کہ بعض دفعہ کچھ نہ مل سکا تو سادہ دل قوم کو وطنیت کے جذبوں کا جال بچھا کر بے موت مروا گئے۔
حقیقت میں،میں اسے غنڈہ نہیں سمجھتا جو ہاتھ میں خنجر لیے گلی چوراہے پر کسی چلتے راہ گیر سے 100 پچاس کے نوٹ ہتھیا لے اور سوٹا بھرتے ہوئے اگلے چوک چوراہے پر کھڑا ہو جائے، اصل غنڈہ وہ ہے جو امن پسند معاشرے کی فضاء میں نفرت تعصب کے نظریوں کو فروغ دے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا گلستان چمن لٹ جائے۔ وہ فتنہ گر حقیقی معنوں میں غنڈہ اور دہشت گرد ہے۔ یہ غنڈہ راج،دہشت گردی رکنے والی نہیں اور شاید کبھی رکے بھی نہ۔ اسلئے کہ یہ مفادات پر چلتی ہے اور ساری دنیا ہی مفادات کو عزیز رکھے ہوئے ہے۔ سیاست کے بازار میں سیاسی غنڈہ کیا کچھ نہیں کرتا عوامی مینڈیٹ کی آڑ لیے وہ ذاتی مفادات سرحد اندر اور سرحد پار تجارتوں میں مصروف رہتا ہے اور جہاں مفادات بگڑتے نظر آئے اسی وقت حب الا وطنی کے نام پر یہ عوامی غنڈہ وطنیت کے نظریے کو استعمال کرتے ہوئے عالمیت کے نظریے کو یوں توڑتا ہے کہ ماں جائے عین ہمسائے جائے انیوں، بربرچھیوں اور بارود،راکٹ،گولا بردار طیاروں کی پروازوں میں ٹوٹ پڑتے ہیں۔ہزاروں عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور جوان اپاہج پن کلاپے کے ساتھ زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور یہ ستم گر سیاسی غنڈہ اک نئے مفاد کے لئے نئے الیکشن میں پھر درد آشنائی کی چادر اوڑھے منافقت بھرے میٹھے لہجوں میں عوام کے زخموں پر مرہم لگا رہے ہوتے ہیں،اور سادہ دل عوام اک بار پھر سے تماش بینوں میں محکوم گھری ہوئی جمہوریت کی طوائف کو ووٹ دے دیتے ہیں شاید اب کی بار طوائف اور تماش بینوں کا من بھر گیا ہو مگر بے سود۔۔
وہی نعرے ایجنڈے چہرے اور وہی الزام کرپشن غداری کے راگ رونے۔
یہ غنڈہ راج اور دہشت گردی شعبہ سیاست میں ہی نہیں نظام مذہب میں بھی ہے،کوئی مذہب نفرت شدت پسندی اور فتنہ فی الا ارض کی اجازت نہیں دیتا مگر یہاں بھی کلے،ٹوپیاں اور دستار والے۔ وہ مذہب کے نام پر اپنے طے شدہ نظریات پر اتنی شدت پسندی اختیار کر لیتے ہیں کہ باالآخر فتنہ تکفیر جنم لیتا ہے اور یہ عوام کے پیسے پہ پلنے والے دین محمدﷺ کی روح کو مجروح کرنے والے ہر ایک پر فتویٰ کفر جاری کرنے سے گریز نہیں کرتے یہی حال معبدوں اور کلیساؤں کا ہے، تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کیسے کلیساؤں مندروں معبدوں سے کسی سلطان کے لیے احکامات جاری ہوئے ہیں تاکہ سلطانی طاقت بڑھے اور جاگیر کا اضافہ ہو۔غرض یہ غنڈے ہر شعبہ حیات میں اپنی مہارتیں دکھاتے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں کبھی وہ انفرادی، اجتماعی صورت میں اور کبھی نظریاتی، مذہبی،ریاستی،اور معاشی طور پر سامنے آتے ہوئے فطرت بد سے مجبور غنڈہ راج اور دہشت گردی کی فضاء پیدا کرتے ہیں۔یہی گھٹن،تعفن زدہ ماحول ان کے فتنوں کے لیے سازگار ثابت ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دور کے پسے انسان اور محکوم عوام ان سیاسی،مذہبی، ریاستی اور معاشی غنڈوں کی اصلیت کو سمجھیں اور ان مداریوں کے جال سے باہر نکلیں۔ بالخصوص پاکستان کے گروہ در گروہ جماعت در جماعت بٹے ہوئے لوگ پہلے اک قوم بنیں،لسانی روایتی تخریبی سوچوں کو سمجھتے ہوئے،جدا جدا صوبہ کی نظریاتی دہشت گردی سے نکلتے ہوئے ملکی اتحاد کو فروغ دیں۔انسان اور انسانیت کے عالمی تصور کے داعی بنیں۔سقراط سے کسی نے پوچھا تھا تیرا ملک کونسا ہے تو سقراط نے جواب دیا یہ ساری دنیا وعالم میرا ہی وطن ہے۔ظلم بربریت اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں وہ مسلمان پر ہو یا کسی اور مکتبہ فکر پر یہی انسانیت کا تقاضہ ہے اور یہی دین فطرت اسلام کا پیغام ہے۔
(ترجمہ)دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔جب دین و مذہب ہی جبر کے خلاف ہیں تو پھر یہ سیاسی، مذہبی، معاشی اور ریاستی غنڈے کس بناء پر نظریاتی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔
سچ ہے مان لیں اک غیر مذہبی اخلاق یافتہ بندہ بہتر ہے، بد اخلاق مذہبی بندے سے اور غیر اسلامی انصاف پسند ریاست بہتر ہے بے انصاف اسلامی ریاست سے۔ ہمیں اگر اقوام عالم اور عالمی برادری میں اپنا وقار انسانیت کی اقدار اور عالمی اخوت کے پرچار پر متحد کرنا ہے تو پھر ہمیں ان مکار جھوٹے عالمی مفاداتی اقتداری،مذہبی،شدت پسند نظریاتی،اور ریاستی،معاشی غنڈوں سے جان چھڑوانی ہوگی تاکہ نوع بشر صیح معنوں میں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز ہو سکے۔
آج نہیں تو کل میرا شعور عوام کے دل پہ دستک دے گا اور انسان بحیثیت انسان زادے محترم ہوں گے۔ وقت آئے گا کہ کون و مکاں تعظیم کریں گے، کہیں گے جو ہم دیوانے اہل خرد تسلیم کریں گے۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button