جوانوں کو پیروں کا استاد کر
عقلیت اور منطق کے نشے سے سرشار راتب خور دانش وروں کے خیال میں ہر وہ نوجوان جو نظام پر سوال اٹھائے احمق، جذباتی، بے وقوف، بدتمیز اور منہ پھٹ ہے۔ اس قبیل کے دانش ور اپنے اپنے آقاؤں کی بدعنوانی پر ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتے۔ بلکہ انہوں نے فکر و دانش کے بجائے قصیدہ گوئی کی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور اسے بہ طریق احسن نبھارہے ہیں۔ یہ دانش ور،نوجوانوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ شب ظلمت سے پنجہ آزمائی کے بجائے،مفاہمت کرلی جائے۔ دانش ور طبقہ اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ اب طرز کہن بدلنے کا وقت ہے۔ یہ کام نوجوانوں کے ہاتھوں سے ہی ہوگا۔ یہ نوجوان توانائی اور ولولے سے بھرپور ہیں۔ انہوں نے صرف ایک عشرے میں اشرافیہ کے قلعے میں گہرے شگاف ڈال دیئے ہیں۔ ہر واردات کو انہوں نے بے نقاب کیا ہے۔ خوف کے بت ٹوٹ چکے ہیں۔ تقدیس کے معبدوں میں رکھی مورتیاں پاش پاش ہوگئی ہیں۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان لات و منات پر لرزہ طاری ہے۔ لوگ ایک ہی ڈگر پہ چلنے کے عادی ہوچکے تھے کہ ان نوجوانوں نے جمود توڑ دیا۔ نوجوانوں کے دم سے ہی پرانی طرز سیاست کے خوگر طبقے کو شدید ترین عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ بے نواؤں کو نوا انہی جوانوں کے دم سے ملی ہے۔ یہ نوجوانوں کا ہی کریڈٹ ہے کہ نظام سوال کی زد میں ہے۔ وطن عزیز کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا کہ جس پر نوجوانوں نے سوال نہ اٹھایا ہو۔ جبر و استبداد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اہل جنوں کا ہی کام ہے۔ یہ اہل جنوں نوجوان ہی ہیں۔ سود و زیاں کا حساب رکھنے والے عقلیت پسند دانش ور قلم تھامے،ظالموں کے حق میں دلائل سوچ رہے ہیں جب کہ نوجوان اک نئی دنیا تعمیر کرنے کی دھن میں ہیں۔ دانش ور آئین نو سے ڈرتے ہیں اور منزل کہن پہ اڑے ہوئے ہیں اور نوجوانوں سے بھی یہ توقع کررہے ہیں کہ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ نکالا جائے اور حنوط شدہ سیاسی لاشوں کے بت بنا کر انہیں دل کے کعبے میں سجالیا جائے جب کہ نوجوان ڈاکٹر قاسم پیر زادہ کے مسلک کے پیروکار ہیں۔
نوجوانوں نے عشروں سے طاری سکوت توڑ دیا ہے۔ جہاں دانش وروں کے پر جلتے ہیں، وہاں سے نوجوانوں کی جرأت کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کی آواز کبھی نحیف و نزار تھی۔ اب سب سے توانا ہے۔ دانش ور نوجوانوں کو تلقین کرتا ہے کہ بساط سیاست کے پٹے ہوئے مہروں، چلے ہوئے کارتوسوں اور مردہ گھوڑوں پر پھر سے بھروسا کر لیا جائے لیکن نوجوان، جن کی آنکھوں میں خواب دمکتے ہیں، نئے جہانوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ دانش ور قصیدہ لکھتا ہے، نوجوان اس کی دانش وری کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہے۔ دانش ور دانش وری کے نام پر غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرتا ہے، نوجوان جابروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کہ جہاں ظالم کے خوف سے لب سل جائیں، زبانوں پہ تالے لگ جائیں، کسی کو جرأت انکار نہ ہو، وہاں اگر کوئی طبقہ جہد مسلسل میں مصروف ہے تو وہ نوجوانوں کا ہی طبقہ ہے۔ یہ طبقہ حاضر و موجود سے بے زار ہے۔ اک نئی دنیا دیکھنے کا تمنائی ہے۔
سماج کی برائیاں بے نقاب کرنے میں پیش پیش طبقہ بھی نوجوانوں کا ہی ہے۔ پارکنگ سٹینڈ سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک، سب کی واردات بے نقاب کرنے، بدنما چہروں سے تقدیس کے غلاف نوچنے اور اشرافیہ کے طرز زندگی پر سوال اٹھانے میں سب سے آگے نوجوان ہی ہیں۔نوجوانوں نے نظام کی تعفن زدہ لاش کو چوراہے میں لاکے رکھ دیا ہے۔ اب تدفین کا وقت ہے۔نوجوان دنیا بھر کے گورننس ماڈلز پر بحث کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ یہ نوجوانوں کا ہی کرشمہ ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے بھرپور مزاحمتی کردار ادا کیا ہے۔ اس ذریعہ ابلاغ نے مین سٹریم میڈیا کے بڑے بڑے ناموں کو بے نقاب کیا ہے۔ اب اس کا خوف سب پر طاری ہے۔ نوجوانوں کو بدتمیز کہہ کر اپنی خفت تو مٹائی جاسکتی ہے لیکن اب یہ سیل رواں رکے گا نہیں۔ وطن عزیز کا سفینہ منزل پہ ضرور پہنچے گا۔
رہی یہ بات کہ نوجوانوں کا لہجہ تلخ کیوں ہے، اس کا جواب اشرافیہ کے کلچر، سیاست دانوں کی بداعمالیوں، عدلیہ کے غیر آئینی کردار، غیر جمہوری قوتوں کے جبر و استبداد، ناانصافی، سماجی ناہمواری اور ظلم میں پوشیدہ ہے۔ جب یہ اسباب ختم ہو جائیں گے تو نوجوانوں کا لہجہ بھی درست کیا ہوجائے گا۔ اس لیے اصل ایشو کو ایڈریس کرنے کے بجائے محض نوجوانوں کو بدتمیز اور منہ پھٹ کہنا بجائے خود ناانصافی ہے۔ دانش ور انہیں کچھ بھی کہہ لیں، کسی بھی لقب سے نوازیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان نوجوانوں نے مزاحمتی کردار ادا کرنے کی جو ذمہ داری سنبھالی ہے، لائق صد تحسین ہے۔ یہ نوجوان جہد مسلسل کا استعارہ ہیں، صبح نو کے نقیب ہیں، وطن عزیز کے روشن مستقبل کی امید انہی کے دم سے ہے۔ یہ سچے اور کھرے بھی ہیں، ان میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے، انہی کے دم سے نظام چمن بدلے گا۔ وطن عزیز کا مستقبل انہی کے ہاتھ میں ہے۔ حنوط شدہ سیاسی لاشوں کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو یہی نوجوان ہیں۔
نوجوانوں نے جان لیا ہے کہ کس صحافی کا جھکاؤ کس طرف ہے، کون صحافت کررہا ہے اور کون قصیدہ گوئی کررہا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال سے مزاحمت کی بڑی بڑی فصیلیں کھڑی کردینا نوجوانوں کا ہی کام ہے۔ یہ حریت کے مجسم اور آزادی کے پیکر ہیں۔ ساڑھے سات دہائیوں سے اشرافیہ نے اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھا۔ اب تک پچاس کی دہائی والی ڈگر پہ چل رہی ہے۔ لیکن ان کا طریق واردات نوجوانوں نے سمجھ لیا ہے۔ تمام تر ریاستی اور حکومتی وسائل کے استعمال کے باوجود اشرافیہ اگر بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اس کے پاؤں تلے سے زمین سرکی ہے، اور کچھ خوف کی فضا کم ہوئی ہے تو یہ نوجوانوں ہی کے عزم و ہمت کا نتیجہ ہے۔ ان کی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔
بقول حبیب جالب
یہ عہد ستم سلسلہ وار کہاں تک
رستے میں اندھیرے کی یہ دیوار کہاں تک
اے صبح میرے دیس میں تو آ کے رہے گی
روکیں گے تجھے شب کے طرف دار کہاں تک