ملک میں 8فروری کو عام انتخابات کا اعلان
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ نے ملک میں عام انتخابات کے لیے 8فروری 2024پر اتفاق کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجہ کی اٹارنی جنرل برائے پاکستان منصور عثمان اعوان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار ممبران کے ہمراہ ایوان صدر میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات ہوئی جس میں آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد پر اتفاق ہوا، قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے سپریم کورٹ میں گیارہ فروری کی تاریخ عام انتخابات کے لیے دی تھی۔ بلاشبہ صدر مملکت اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے درمیان عام انتخابات کی تاریخ پر متفق ہونا خوش آئند امر ہے، کیونکہ قبل ازیں دونوں شخصیات کے درمیان تاریخ دینے کے معاملے پر کافی خط و کتابت ہوچکی اور اختلافات سامنے آچکے ہیں۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی ہوجائے گی۔ سیاسی پارٹیاں موزوں امیدواروں کا انتخاب کریں گی اور رابطہ عوام مہم میں اپنی ماضی کی کارکردگی اور مستقبل کے لیے منشور پیش کریں گی۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاحال الیکشن شیڈول جاری نہیں کیا لیکن توقع ہے کہ جلد ہی شیڈول جاری کردیا جائے گا، جس کے بعد کاغذات نامزدگی کی وصولی، جانچ پڑتال، عذر داریاں، اپیل، انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ سمیت دیگر مراحل پایہ تکمیل کو پہنچیں گے اور اگر سب ٹھیک چلتا رہا تو آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ مگرسب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں برابر کا موقعہ فراہم کیا جائے، کسی موقعہ پر ایسا تاثر ظاہر یا محسوس نہیں ہونا چاہیے جس سے قبل از انتخاب ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر اُنگلیاں اٹھنا شروع ہوں اور انتخابات کے انعقاد کے لیے ہونے والی ساری مشق رائیگاں چلی جائے اور نظر آنا شروع ہوجائے یا محسوس ہو کہ کسی جماعت کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے اور کسی کے لیے مشکلات۔ کیونکہ کہنے کو تو ہم جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے اعمال جمہوری اقدار اورجمہوری نظام کی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً سیاسی جماعتیں عوام سے زیادہ کہیں اور نظریں جمائے بیٹھتی ہیں تاکہ اقتدار ان ہی کو ملنا یقینی ہو جائے اور باقی سب دیکھتے رہ جائیں۔ اور اگر جیت اِس کے حصے میں آتی ہے تو باقی جماعتیں انتخابی عمل کی شفافیت پر اُنگلیاں اُٹھانا شروع کردیتی ہیں، نتیجتاً ملک میں سیاسی عدم استحکام قبل از انتخاب، نتائج کا اعلان اور نئی حکومت کے آغاز سے قبل ہی شروع ہوچکا ہوتا ہے، وہ تمام سیاسی جماعتیں ایک پلڑے میں چلے جاتی ہیں اور منتخب حکومت کے خلاف ایک بار پھر رابطہ عوام مہم شروع کردیتی ہیں، ماضی کی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ”سلیکٹڈ“ کہاگیا اور جب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو انہیں ”امپورٹڈ“ کہاگیا اور اب تک کہاجارہا ہے، لہٰذا سیاسی قائدین کے لیے سمجھنا بہت ضروری ہے کہ انتخابات سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے، اِس لیے انتخابی عمل کو مشکوک نہیں بنانا چاہیے اسی طرح نگران حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں اور سبھی جماعتوں کو برابری کی سطح پر موقعہ دیں، کیونکہ نگراں حکومت کا بنیادی فرض شفاف و منصفانہ الیکشن کرانا ہے، ووٹرز کو حق رائے دہی کے استعمال کے لیے پرامن فضا اور ماحول فراہم کیا جائے، وگرنہ نگراں حکومتوں پر بھی سوالات اٹھیں گے، پس سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال ہوناناگزیر ہے، غیر جانبدار حیثیت میں قانون کے دائرے میں کام کیا جائے، تمام سیاسی پارٹیوں کو یکساں مواقع اور سہولتیں فراہم کی جائیں، ادارے اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے کسی سے امتیازی سلوک نہ کریں بلکہ سب کے لیے اپنے پلڑے برابر رکھیں، کیونکہ انتخابات متنازعہ نہیں ہوں گے تبھی اگلے پانچ سال نو منتخب حکومت اور عوام کے لیے بخیر و خوبی ہوں گے وگرنہ سیاسی ہیجان، بے یقینی، عدم اعتماد برقرار رہے گا، لہٰذا ماضی بالخصوص ماضی قریب کی تلخیوں کو بڑے دل کے ساتھ فراموش کرکے میدان میں اُتریں، کہیں اور دیکھنے کی بجائے فیصلہ عوام کی عدالت پر چھوڑیں جس کو عوام منتخب کرے، اُس کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور اپنی غلطیوں اورخامیوں کو دور کریں جن کی وجہ سے ووٹرز نے آپ کی بجائے کسی دوسری جماعت کا حکمرانی کے لیے انتخاب کیا۔ سبھی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے اور یکساں مواقعے ملنے چاہئیں۔ انتخابی مہم میں اداروں یا شخصیات کی تضحیک کی بجائے اپنے منشور پر بات کریں، اپنی کارکردگی پر بات کریں، اور اگر کہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو مہذب ممالک کے انتخابات اور انتخابی مہم سے رہنمائی حاصل کریں، ماضی کی روش کو ترک کرنا ہی سبھی سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کے حق میں ہے۔