چھوٹے بڑے بھکاری!!

محمدانور گریوال
بشیر سے گہرے تعلق کو تین دہائیاں بیت چکی ہیں، ہفتے میں ایک دو ملاقاتیں ضرور ہو جاتی ہیں، اکثر اوقات وہی میرے پاس چلا آتا ہے،وہ تعلیم کے میدان میں زیادہ معرکہ آرائی نہیں کر سکا، مگر اُس کی بہت سی خوبیوں میں ایک یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ رکھتا ہے۔ (اور اُس کی بہت سی خامیوں میں ایک یہ ہے کہ وہ اپنی ہی بات کو درست اور سچ مانتے ہوئے اُس سے پیچھے نہیں ہٹتا)۔ اگر ملاقات کو زیادہ دن گزر جائیں تو میں باقاعدہ کوشش کرکے یہ موقع خود کو فراہم کرتا ہوں۔ وہ جب بھی آتا ہے، اُس کے پاس حل طلب کچھ مسائل ہوتے ہیں، جنہیں ہم دونوں نے مل کر ہی حل کرنا ہوتا ہے، سچ یہ ہے کہ اُن میں سے اکثر مسائل کا حل نہ اُس کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہوں۔البتہ اُس کا خیال ہے کہ میں کالم نگار ہونے کے ناتے اُس کے اہم ترین ایشوز کو کسی اہم ترین شخصیت تک پہنچانے کی طاقت یا پھر صلاحیت رکھتا ہوں۔ میں اُسے بہت سمجھاتا ہوں، اپنی حقیقت بتاتا ہوں، مگر اپنی ضد پر قائم رہنے کی اُس کی عادت بہت پختہ ہو چکی ہے۔
پرسوں وہ میرے پاس آیا تو اُس نے اپنا موبائل کھولا اور میری توجہ حاصل کرکے کوئی تحریر پڑھنی شروع کر دی۔ میں نے اُسے یاد دلایا کہ جناب یہ تحریر آپ ہی کے توسط سے گزشتہ شام کی میرے موبائل میں وارد ہو چکی ہے، اور آپ کی دل جوئی کے لیے مجبوراً میں اُسے پڑھ بھی چکا ہوں،(کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ایک پیپر کی طرح مجھے اُس کی ہر پوسٹ کا حساب کتاب دینا ہوتا ہے)۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور ہمہ تن گوش ہوئے رہنے کا کہا۔ بھکاریوں کے بارے میں کچھ اعداد و شمار سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے اُس کے پاس پہنچے تھے، اور وہ اپنی ماہرانہ رائے کے ساتھ ساتھ میری معلومات میں اضافہ کا سبب بھی بننا چاہتا تھا۔ میں نے اُسے بتانے کی کوشش کی کہ سوشل میڈیا کی ہر بات قابلِ یقین نہیں ہوتی، بلکہ اکثر باتیں جھوٹ یا افواہ کے زمرے میں آتی ہیں۔ میری سوچ اور نظریے کی نفی کرتے ہوئے اُس نے اپنی بات کو درست قرار دیا اور پوری تحریر مجھے سنا کر ہی چھوڑی۔
میں یقین کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ چوبیس کروڑ عوام میں سے پونے چار کروڑ بھکاری نہیں ہو سکتے، وہ نہ صرف اپنی بات پر مُصّر تھا، بلکہ اُن میں سے مرد، عورتوں اور بچوں وغیرہ کی تخصیص کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کی تعداد وغیرہ کا بھی دعویٰ کر رہا تھا جو بظاہر عام آدمی دکھائی دیتے ہیں، مگرحالات کی تنگی اور سنگینی کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اُس نے یہ بھی بتایا کہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں کتنے فیصد بھکاری پائے جاتے ہیں، اور اُن کی روزانہ اوسط آمدنی کیا ہے۔ حسبِ عادت اور حسبِ سابق اُس کے پاس مسئلے کا حل بھی تھا، اور اعدادو شمار کے حساب سے مثبت طریقے سے کمائی ہوئی آمدنی کا بھی اُس نے حساب کر رکھا تھا۔ چونکہ یہ سب کچھ اُس کا خود سوچا ہوا معاملہ نہیں تھا، اس لیے میں بھی زیادہ پریشان یا متاثر نہیں ہوا، تاہم بھکاری کے لیے کاروبار کے تخیل سے میں متاثر ضرور ہوا، اپنے اس تاثر کی اطلاع میں نے اُسے بھی کر دی تاکہ وہ خوش بھی ہو جائے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی ہو جائے۔
اُس کا مضمون شاید پورے کالم کے برابر تھا، کہ اُس میں چھوٹے پیمانے کے بہت سے کاروبار بھی بتائے گئے تھے، اور اُن سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی عوام کی جیب سے نکلنے والے پیسوں سے زیادہ تھی۔ کچھ اسلامی ٹچ بھی اس کے منصوبے میں تھا، جس کے مطابق بھیک کو روپے پیسے کا غلط استعمال قرار دیا گیا تھا۔ سچ جانئے تو میں بھی اُس کے کچھ نسبت تناسب کے علاوہ زیادہ تر باتوں سے متفق تھا۔ میں خود روزانہ اسی تجربے سے گزرتا ہوں کہ جہاں آپ ایک منٹ کے لیے رُک گئے تو ممکن نہیں کہ کوئی بھکاری نہ آدھمکے، اب تو انہوں نے بے حد روپ اپنا رکھے ہیں، کہ انسان اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کون حق دار ہے اور کون غیر مستحق۔ پھر یہ معاملہ ایسا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھی اُن کی مدد کرکے اللہ کی رضا اور ثوابِ دارین حاصل کرتا ہے۔
میں سوچنے لگا کہ بھکاریوں کے جتنے رُخ اُس نے بتائے ہیں، وہ حقیقت پر مبنی ہیں، عوام خود بھی بہت سی جگہوں پر اپنی کم علمی یا تَوہم پرستی یا کسی نادیدہ خوف کی بنا پر نوسر بازوں کے ہاتھوں لُٹتے ہیں۔ ایک تو غیر حقیقی معذور ہوتے ہیں، جنہیں آج کل سوشل میڈیا پر ہی پولیس بے نقاب کر رہی ہوتی ہے، اور اُن کی معذوری کا بھانڈہ سرِ بازار ہی پھوڑ رہی ہوتی ہے۔ ایک معذور وہ ہیں جنہیں کسی موڑ یا سپیڈ بریکر یا کسی ایسی ہی جگہ پر کوئی صبح منہ اندھیرے رکھ جاتا ہے، اور شام کے اندھیرے پھیلنے پر اٹھا کر لے جاتا ہے، ایسے بھکاریوں کا ٹھکانہ جاننے کی بھی ضرورت ہے، کہ جن کے پیچھے کوئی مافیا کام کر رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو کسی مارکیٹ یا عوامی مقام پر کھڑے ہوئے یکدم کوئی عام سا آدمی یا عورت سامنے آتے ہیں اور دستِ سوال دراز کر دیتے ہیں، کہ انسان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔
بشیر کو میں تنگ کرنے کے لیے اُس کے بیان کردہ اعدادوشمار کی مخالفت کرتا رہا، بعض باتوں میں اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ اُس کا مطالبہ مجھ سے بہت زیادہ یا بڑا نہیں تھا، مفادِ عامہ کے پیشِ نظر اُس کا خیال تھا کہ کالم لکھے جانے سے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ مگر میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ ایک کالم اِن مافیا اور پیشہ ور بھکاریوں کا کیا بگاڑ سکے گا؟ یہاں تو اپنی حکومتیں بھی اِن بھکاریوں کی ہم پیشہ ہیں۔ آئی ایم ایف ہے یا ہم ہیں دوستو! فرق بس اِتنا ہے کہ یہ پیشہ ور بھکاری زیادہ تر بہت پیسے والے ہوتے ہیں، جن کی آمدنی کی آئے روز خبریں پڑھنے سننے کو ملتی رہتی ہیں، جبکہ ہمارا قومی خزانہ خالی ہے، انفرادی طور پر خواہ ایسے نہ بھی ہو۔ آئی ایم ایف یا دیگر ممالک سے جو بھیک ملتی ہے وہ بھیک مانگنے والے کھا جاتے ہیں۔ بہرحال بشیر بھیک کو ملک کے لیے زہرِ قاتل کہتے ہوئے، مستقبل اور کسی حد تک مجھ سے بھی مایوس ہوتے ہوئے روانہ ہو گیا، اگلے کچھ دنوں میں اپنی عادت سے مجبور کسی نئے مسئلے کے ساتھ پھر آن ٹپکے گا، نہ آیا تو میں خود ملاقات کا کوئی جواز ڈھونڈ نکالوں گا۔