نواب زادہ مر حوم کی ضرورت
احمد خان
ملکی سیاست میں تلخی کا عنصر ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے، ہر دور میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے قریباً دست و گریباں رہی ہیں، ملکی سیاست میں شاید ہی کو ئی ایسا قلیل سا دور گزرا ہو،جب سیاسی جماعتوں کے درمیاں دال جوتیوں میں نہ بٹی ہو، ماضی کی سیاست کے اہم کردار نواب زادہ نصر اللہ مر حوم ومغفور تھے، عمو ماً جب سیاسی جماعتوں کے درمیاں سیاسی پارہ ملکی سیاست کو جھلسا نے لگتا تو نواب صاحب اپنے سیاسی جا دو کی چھڑی کو کچھ ایسا گھما تے کہ ایک دوسرے کی صورت نہ دیکھنے والے سیاست دانوں کو بھی اپنی سیاسی بصیرت کے زور پر ایک میز پر لا بٹھا تے، نواب صاحب کی شخصیت پاکستانی سیاست کے لیے گویا ایک اکسیر کی حیثیت رکھتی تھی، اریب قریب تمام حکومتوں کے خلاف نواب صاحب حزب اختلاف کے سر خیل ہوا کر تے تھے لیکن سیاسی جماعتوں میں گفت و شنید کی میزبانی کا شرف بھی ہمیشہ انہی حاصل ہوا کرتا تھا۔
نواب صاحب کے راہی عدم ہو نے کے بعد پاکستانی سیاست میں کو ئی ایسی باکمال سیاسی شخصیت سامنے نہ آسکی جو سیاسی جماعتوں میں پیدا ہو نے والی تلخی کو کم کر نے میں جامع کردار ادا کر سکے۔ لگے چند سالوں میں پاکستانی سیاست میں پیدا ہو نے والی تلخی کا مداوا نہ ہو نے کی وجہ سے اب یہ تلخی باقاعدہ ذاتی دشمنی کا روپ دھا ر چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کے دور میں جناب خان نے جس طر ح سے محاذ گرم کیے رکھا، کپتان کو مذاکرات یعنی کچھ لو کچھ دو پر لا نے کے لیے کو ئی ایسا قد آور سیاست داں موجود نہ تھا جو مسلم لیگ نون اور کپتان کے درمیاں جاری کشیدگی کو کم کر نے کا سبیل کر تا، کچھ ایسا ہی تلخ سیاست کا دور دورا اس وقت بھی دیکھنے کو ملا جب کپتان خود مسند اقتدار پر تشریف فرما ہو ئے، پھر تو سیاسی جماعتوں میں گویا گھمسان کی جنگ برپا رہی۔ جناب خان اپنے سیاسی مخالفین سے بات کر نا تو درکنا ر ہاتھ ملا نے کے لیے تیار نہ تھے، گویا ذاتی جنگ و جدل کا دور خوب زوروں پر رہا دوسری جناب حزب اختلاف سے جڑی تمام چھو ٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہر صورت جناب خان کو رگیدنے کے لیے سر گر م رہیں، سیاست دانوں کی اس باہمی رقابت کے جو نتائج نکلے و ہ نکلے اہل اقتدار اور حزب اختلاف کے اس ”سیاسی ملا کھڑا“میں عوام پاؤں تلے ایسے روندے گئے کہ اب تک عوام کی حالت زار سنبھل نہ پائی۔
اب بھی اگر چہ چہرے اِدھر سے اُدھر ہو چکے لیکن پاکستانی سیاست میں اسی تلخی کا سورج سوا نیزے پر ہے، تحریک انصاف کے سربراہ سمیت تحریک انصاف زیر عتاب ہے، اب مسلم لیگ نون اور پی پی پی سمیت دوسری سیاسی جماعتیں قدرے آسانی میں ہیں، ملک کے سیاسی حالات مگر جو ں کے تو ں ہیں، کل تلک جناب خان اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملا نے کے لیے تیار نہ تھے آج جناب خان اور ان کی جماعت سیاسی حریفوں سے مذکرات کی متمنی ہے لیکن مسلم لیگ نون، پی پی پی اور ان کی ہم خیال سیاسی جماعتیں تحریک انصاف سے مذکرات پر آماد نہیں، جس طر ح کے سیاسی حالات چل رہے ہیں،گر ان کڑوے کسیلے منظر میں انتخابات ہو بھی جاتے ہیں، غالب امکاں یہی ہے کہ سیاست کے بہت سے پر دھان ان انتخابات پر شد و مد سے سوالات اٹھا ئیں گے۔
ملکی سیاست میں پیدا تلخی اور نفرت کو ختم کر نے کے لیے ضروری ہے کہ کو ئی نواب زادہ مرحوم جیسا قد آور سیاست داں آگے بڑھے اور تمام سیاسی جماعتوں میں نہ صرف باہمی گفت و شنید کی شروعات کر ے بلکہ سیاسی جماعتوں میں پیدا ہو نے والی نفرت کو کم کر نے کے لیے جامع مذکرات کی راہ بھی ہم وار کرے، جب تک سیاسی جماعتوں میں در آنے والی نفرت کا شافی علا ج نہیں کیا جاتا، اس وقت تک صحیح معنوں میں پاکستانی سیاست کی کشتی ہچکولے کھا تی رہے گی، اور اس سیاسی کشتی میں سوار عوام کا مقدر اسی طر ح سے کھوٹا رہے گا، جس طرح سے اٹھارہ کے انتخابات پر سوالات اٹھا ئے جاتے رہے ہیں، گر 2024ء میں ہو نے والے عام انتخابات میں بھی کچھ اس طر ح کے قصے کہانیاں دہرانے کی کو شش کی گئی، ایسے حالات میں انتخابات بھی ہو جا ئیں گے اور کو ئی نہ کو ئی سیاسی جماعت حکومت بھی سنبھال لے گی لیکن اس حکومت کو شاید نہ تو عوام کی تائید حاصل ہو گی نہ وہ حکومت صٓائب طور پر اپنے حکومتی امور سر انجام دے سکی گی، سو صائب مشور ہ یہی ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں میں محبت کی فضا پیدا کر نے کی سنجیدہ کو شش کی جا ئے تاکہ ملک کی سیاست کو استحکام نصیب ہو سکے اور عوام کے مسائل بھی کچھ حل ہو سکیں۔