ایڈیٹوریل

عام انتخابات، سپریم کورٹ کا صائب اقدام

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی اور اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے پورے ملک کی تاریخ دے دی، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا۔ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا، تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے۔سپریم کورٹ نے حکم نامے کے ساتھ انتخابات سے متعلق تمام درخواستیں نمٹا دی ہیں جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر نے سپریم کورٹ میں دائر کی تھیں جو عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے خلاف تھیں۔ جمعرات کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ای سی پی کو اس معاملے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کا حکم دیاجس کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفد نے صدر مملکت سے ملاقات کی اور صدر کو ایک خط بھی لکھا گیا جس میں عام انتخابات کی تاریخ 11 فروری 2024 تجویز کی گئی لیکن بالآخر، جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اتفاق رائے سے ایک تاریخ کا اعلان کیا گیاجو آٹھ فروری تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اِس معاملے پر دائر ہونے والی تمام درخواستیں گذشتہ روز نمٹادیں کیونکہ درخواست گزاروں کا مقصد انہیں حاصل ہوچکا تھا۔ بلاشبہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہ میں تین رکنی بینچ نے تلوار کی دھار پر کھڑی سیاست کوبہترین بصیرت کے ساتھ نیچے اُتار دیا ہے، اب ملک میں انتخابات کے انعقاد کے متعلق پیدا ہوئی اور پھیلائی گئی بے یقینی کا بلاشبہ خاتمہ ہوگا اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے اپنی تیاریوں میں تیزی لے آئیں گی، مگر یہی وہ مرحلہ ہے جس میں ملک کے سنیئرترین سیاست دان بالغ نظری اور تجربے کو بروئے کار لائیں یعنی وہ تمام غلطیاں جو ماضی میں دھرائی جاتی رہی ہیں وہ دھرانے سے گریز کیا جائے اور انتخابی امن کو اشتعال اور ذاتی تنقید کی بجائے منشور اور کارکردگی تک محدود رکھاجائے۔ سبھی سیاست قوتیں اور ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ادارک کریں اور اپنی ساکھ کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہر اُس عمل سے دور رہیں جن سے اُن کی ساکھ متاثر ہو یا متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ ماضی قریب یعنی پچھلے ڈیڑھ دو سال میں جو کچھ ہوا اُس کو ایک طرف رکھ کر بہترین اور جمہوری مثالیں قائم کی جائیں اور سیاسی مخالفین کے لیے بھی رویہ اختیار کیا جائے جو خود برداشت کرنے کی سکت ہو۔ جہاں تک انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر صدر مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان پیدا صورت حال کا تعلق ہے تو اِس معاملے پر کئی سوالات بیک وقت اُٹھتے ہیں جیسے صدر علوی نے زیادہ تر قانونی ماہرین کے مطابق اور اس معاملے پر ای سی پی کے موقف کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کی تاریخ کیوں نہ دینے کا انتخاب کیا۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان، سابق پی ڈی ایم حکومت سے بھی تلخ سوالات پوچھے جاسکتے ہیں، سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد چیف الیکشن کمشنر فوراً صدر مملکت سے مشاورت کے لیے ایوان صدر پہنچے، تو کیا ہی بہتر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں جانے کی نوبت ہی نہ آتی اور چیف الیکشن کمشنر صدر مملکت سے مشاورت کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا معاملہ طے کرلیتے۔ بہرکیف قریباً ایک سال سے زائد وہ کچھ ہوتا رہا جو سپریم کورٹ نے ایک ہی دن میں ختم کرادیا، بہرکیف انتخابات میں تاخیر کے حالات کے باوجود اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے اتنی سیاسی بے یقینی اور افراتفری دیکھی گئی ہے کہ اِسے زندگی بھر یاد رکھا جاسکتا ہے۔ میاں نوازشریف چار سال بعد پاکستان آچکے ہیں اور عمران خان جیل جاچکے ہیں، لہٰذا ہر لمحہ قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں، عامۃ الناس میں اکثر یہ بات زیر بحث سنائی دیتی ہے کہ کیا عمران خان انتخابات سے قبل جیل سے باہر آجائیں گے یا اُن کی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جو اُٹھائے تو جارہے ہیں لیکن اُن کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر ایک خدشہ بہرکیف موجود ہے کہ اگر عمران خان یا اُن کی جماعت یا کوئی اور جماعت یا اُس کا سربراہ انتخابی عمل سے باہر ہوتے ہیں تو کیا اُن کے ووٹرز اُس انتخابی عمل کو صاف و شفاف قرار دیں گے؟ لہٰذا ایسے مزید سوالات جنم نہ لیں اِس کے لیے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو اپنے اپنے طور پر سوچنا چاہیے تاکہ آئندہ عام انتخابات غیر متنازعہ، صاف و شفاف ہوں اور کسی کو انتخابی عمل پر اُنگلی اٹھانے کا موقعہ نہ ملے۔

جواب دیں

Back to top button