سپیشل رپورٹ

ایران کے رہبر اعلیٰ کی اسرائیل اور امریکہ کو ’تباہ کن جواب‘ کی دھمکی

ایران کے قائدِ اعلیٰ نے ہفتے کے روز ایران اور اس کے اتحادیوں پر حملے کرنے پر اسرائیل اور امریکہ دونوں کو”تباہ کن جواب” دینے کی دھمکی دی۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس بارے میں بات کی جبکہ ایرانی حکام 26 اکتوبر کو اسلامی جمہوریہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف ایک اور جوابی حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس حملے میں ایران کے فوجی مراکز اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے۔

کسی بھی طرف سے مزید کوئی حملہ شرقِ اوسط کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے جو پہلے ہی غزہ کی پٹی میں اسرائیل-حماس جنگ اور لبنان پر اسرائیل کے زمینی حملے کے باعث ایک وسیع علاقائی تنازعہ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ یہ وقت اس لیے بھی انتہائی نازک ہے کہ اس منگل کو امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کی جاری کردہ ویڈیو میں خامنہ ای نے کہا، "خواہ صیہونی حکومت ہو یا امریکہ، دشمن ایران اور ایرانی قوم اور محورِ مزاحمت کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کا انہیں ضرور تباہ کن جواب ملے گا۔”

قائدِ اعلیٰ نے حملے کے وقت اور اس کے دائرۂ کار کی وضاحت نہیں کی۔ امریکی فوج پورے شرقِ اوسط میں کام کرتی ہے اور اب اسرائیل میں تھاڈ میزائل نظام کے لیے بعض فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔

85 سالہ خامنہ ای نے پہلے کے تبصروں میں زیادہ محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے کہا تھا، حکام ایران کے ردِ عمل کا تعین کریں گے اور اسرائیلی حملے "پر نہ مبالغہ آرائی کی جائے اور نہ ہی اسے کم سمجھا جائے۔”

لیکن ایران کی طرف سے حملے کو کم نمایاں کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی تجزیہ کردہ سیٹلائٹ تصاویر میں دکھایا گیا کہ حملوں میں تہران کے قریب فوجی مراکز کو نقصان پہنچا تھا جو ملک کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک ہیں اور ساتھ ہی سیٹلائٹ چھوڑنے میں استعمال ہونے والے پاسدارانِ انقلاب کے فوجی مرکز کو بھی نقصان پہنچا۔

تہران کی طرف سے "محورِ مزاحمت” کہلانے والے ایران کے اتحادیوں بالخصوص غزہ کی پٹی میں حماس اور لبنان کی حزب اللہ کو بھی جاری اسرائیلی حملوں میں شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایران نے طویل عرصے سے ان گروہوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے ایک غیر متناسب طریقے اور براہِ راست حملے کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ گروپ چاہتے ہیں کہ ایران ان کی فوجی حمایت کے لیے مزید اقدامات کرے۔

البتہ ایران اندرونِ ملک اپنے مسائل سے نبرد آزما ہے کیونکہ بین الاقوامی پابندیوں کے بوجھ تلے اس کی معیشت جدوجہد کر رہی ہے اور اسے برسوں سے وسیع اور متعدد مظاہروں کا سامنا ہے۔

اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے درکار بیلسٹک میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے ایران کے نیم فوجی پاسدارانِ انقلاب کے ترجمان جنرل محمد علی نینی نے ایک انٹرویو دیا جو خامنہ ای کے تبصرے جاری ہونے سے عین قبل نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی نے شائع کیا۔ اس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کا جواب "دانشمندانہ، طاقتور اور دشمن کی سمجھ سے بالاتر ہو گا۔”

انہوں نے خبردار کیا، "صیہونی حکومت کے قائدین اپنی خواب گاہوں کی کھڑکیوں سے باہر دیکھیں اور مجرم پائلٹوں کو اپنے چھوٹے علاقے میں محفوظ کر لیں”۔

خامنہ ای نے ہفتے کے روز یومِ طلباء کے موقع پر یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات کی جو چار نومبر 1978 کے اس واقعے کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ایرانی فوجیوں نے تہران یونیورسٹی میں شاہ کی حکمرانی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء پر گولی چلا دی تھی۔ اس فائرنگ سے متعدد طلباء ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے اور اس وقت ایران میں تناؤ میں مزید اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں شاہ ملک سے فرار ہو گئے اور 1979 کا اسلامی انقلاب آیا۔

ہجوم نے خامنہ ای کا اس نعرے کے ساتھ پرجوش استقبال کیا: "ہماری رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہمارے قائد کے لیے تحفہ ہے!” بعض افراد نے ہاتھ کا "ٹائم آؤٹ” کا اشارہ بھی کیا جو حزب اللہ کے مقتول رہنما حسن نصر اللہ نے 2020 میں ایک تقریر میں کیا تھا جس میں انہوں نے دھمکی دی تھی کہ شرقِ اوسط آنے والے امریکی فوجی جو اپنے قدموں پر کھڑے ہیں، وہ افقی "تابوتوں میں واپس” جائیں گے۔

فارسی کیلنڈر کے مطابق ایران اس اتوار کو امریکی سفارت خانے کے یرغمالی بحران کی 45 ویں برسی منائے گا۔ چار نومبر 1979 کو اسلام پسند طلباء کی سفارت خانے پر یلغار 444 روزہ بحران کا باعث بنی جس نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان کئی عشروں سے جاری دشمنی کو مزید تقویت دی جو آج بھی جاری ہے۔

جواب دیں

Back to top button