بین الاقوامی

اسرائیلی فوجی سے چھینا گیا پسٹل السنوار کے قتل کے بعدان کی پہلی شناخت

حماس کے رہ نما یحییٰ السنوار کے قتل کی تفصیلات بتدریج سامنے آنا شروع ہو گئیں۔

اسرائیلی میڈیا نے آج جمعہ کو انکشاف کیا کہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے قبضے سے ملنے والے سامان میں سے 2018 میں غزہ میں مارے جانے والے ایک اسرائیلی فوجی کی پستول بھی شامل تھی جسے السنوار ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اور اسے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی ناکامی کے طور پر بیان کرتے تھے۔

اسرائیلی چینل 14 نے رپورٹ کیا کہ "السنوار کو مارنے کے بعد اس کے پاس سے جو پستول ملا تھا وہ محمود خیرالدین نامی ایک اسرائیلی افسر کا تھا جو 2018 میں جنوبی غزہ کی پٹی میں اسرائیلی سپیشل فورسز کی کارروائی میں مارا گیا تھا”۔

چینل نے بتایا کہ”خیر الدین اسپیشل آپریشنز یونٹ میں ایک افسر تھا اور اس نے غزہ کی پٹی کے اندر دراندازی کی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ اس کی موت کے تین سال بعد تک اس کی تدفین کی جگہ کے بارے میں معلومات راز میں رہیں۔

السنوار نے اس پستول کو ایک سے زیادہ عوامی مواقع کے دوران دکھایا اور فخریہ بتایا یہ ایک اسرائیلی افسر کا ہے۔ یہ اسرائیلی فورس کے مشن کی ناکامی کا ثبوت ہے جس نے غزہ کے دل میں دراندازی کا ایک جرات مندانہ مشن انجام دیا تھا۔

اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ یحییٰ السنوار بدھ کے روز جنوبی غزہ کی پٹی میں ایک مسلح تصادم کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا جنہیں ابتدائی طور پر اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسرائیل کا نمبر ون دشمن ان کے گھیرے میں آ چکا ہے۔

اسرائیلی فوج نے جمعرات کو کہا کہ انٹیلی جنس سروسز کئی مہینوں سے السنوار کو تلاش کر رہی تھیں اور اس نے آہستہ آہستہ اس علاقے کو تنگ کر دیا تھا جہاں وہ کام کر سکتا تھا۔

حماس نے اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن تحریک کے اندر موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو اشارے دیکھے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سنوار واقعی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اسرائیلی ڈیفنس فورسز اور داخلی سکیورٹی سروس (شن بیت) کی طرف سے پچھلے سال کے دوران اور گذشتہ ہفتوں کے دوران اس علاقے میں درجنوں کارروائیوں نے آپریشنل نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔ یحییٰ السنوار کی افواج کے تعاقب کے دوران اور اس کے خاتمے کا باعث بنے”۔

حکام نے بتایا کہ پیادہ فوجیوں نے اسے بدھ کے روز غزہ کے جنوب میں تل السلطان میں ایک علاقے کی تلاشی کے دوران دیکھا جہاں انہیں یقین تھا کہ حماس کے سینئر رہنما موجود تھے۔

فورسز نے تین بندوق برداروں کو عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے دیکھا اور فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں مسلح تصادم ہوا جس کے دوران السنوار ایک تباہ شدہ عمارت میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔

اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ عمارت پر توپ خانے اور راکٹ کے گولے بھی فائر کیے گئے۔

کل جمعرات کو فوج نے ایک چھوٹے ڈرون کے ذریعے لیے گئے ویڈیو کلپس نشر کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ السنوار اپنے ہاتھ پر شدید چوٹوں کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور چہرہ ڈھانپ رکھا ہے۔ ویڈیو فوٹیج میں وہ ڈرون کو گرانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اس پر چھڑی پھینکنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ایڈمرل ڈینیئل ہاگاری نے کہا کہ فورسز نے اس مرحلے پر سوچا کہ یہ حماس کا جنگجو ہے، لیکن وہ اندر داخل ہوئے اور اسے ایک ہتھیار، ہینڈ گرینڈز سے لدی حفاظتی جیکٹ پہنے ہوئے ایک شخص ملا جس کے پاس 40,000 شیکل کی رقم بھی تھی۔

انہوں نے ایک ٹیلی ویژن بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ "اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اس سے پہلے کہ ہماری فورسز نے اسے مار ڈالا”۔

السنوار کو سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا جس نے غزہ میں جنگ کو ہوا دی۔ اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں اس نے فون اور دوسرے مواصلاتی آلات کا استعمال بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسرائیل کی طاقتور انٹیلی جنس سروسز کو اس کا سراغ لگانے کا موقع نہیں ملا۔

اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ وہ سرنگوں کے وسیع نیٹ ورک میں چھپا ہوا تھا جسے حماس نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران غزہ کے نیچے کھود رکھا تھا، لیکن جیسے ہی اسرائیلی فورسز نے زیادہ سے زیادہ سرنگیں دریافت کیں تو السنوار کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے گذشتہ ایک سال کے دوران السنوار کے تعاقب نے انہیں "مفرور کی طرح کام کرنے پر مجبور کیا۔ وہ بار بار اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے۔

جواب دیں

Back to top button