سپیشل رپورٹ

کئی روز کی افواہوں اور قیاس آرائیوں کے بعد بالآخر اسماعیل قاآنی منظرعام پر آگئے

ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم ’القدس فورس‘ کے کمانڈر اسماعیل قاآنی کی پراسرار گم شدگی کے بعد ان کے حوالے سے سامنے آنے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کےتناظرمیں انہیں پہلی بار ایران کے دارالحکومت تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر دیکھا گیا ہے۔

گذشتہ دنوں ان کی قسمت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور قیاس آرائیوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا کیونکہ ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قاانی لبنان میں آخری بار حزب اللہ کے نئے سیکرٹرجنرل ہاشم صفی الدین کے ساتھ ملاقات کے بعد منظر عام سے غائب تھے۔

ایرانی ٹیلی ویژن نے منگل کی صبح لبنان اور شام میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر عباس نیلفروشان کی میت کے استقبال کے مناظر نشر کئے۔

قاانی تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر متعدد فوجی اور سویلین حکام کے ساتھ نمودار ہوئے۔

ایک ایرانی صحافی نے اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر قدس فورس کے کمانڈر کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی اور ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے "اب مہرآباد ہوائی اڈے پر” پر لکھا۔

پاسداران انقلاب نے گذشتہ چند دنوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 67 سالہ رہن ما بالکل ٹھیک ہیں اور معمول کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

دو سینیئر ایرانی سکیورٹی حکام نے گذشتہ ہفتے رائٹرز کو بتایا تھا کہ ستمبر کے آخر میں بیروت پر حملوں کے بعد سے ان سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ ایک اہلکار نے انکشاف کیا کہ قدس فورس کے کمانڈر بیروت کے جنوبی علاقے الضاحیہ میں تھے جب طاقتورحملوں حزب اللہ کے رہ نما حسن نصر اللہ کے ممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین کو نشانہ بنایا گیا لیکن ایک اہلکار نے واضح کیا کہ قاانی نے صفی الدین سے ملاقات نہیں کی۔

قابل ذکر ہے کہ آخری بار قاآنی حسن نصراللہ کے قتل کے دو دن بعد 29 ستمبر کو تہران میں عبداللہ ہاشم صفی الدین کے دفتر میں آئے تھے۔

لیکن گذشتہ جمعہ 4 اکتوبر کوحسن نصر اللہ کی یاد میں سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے خطبہ میں شرکت سے ان کی غیر موجودگی نے کئی سوالات کو جنم دیا تھا۔

گذشتہ اتوار کو خامنہ ای کی جانب سے فضائیہ کے کمانڈر میجر جنرل امیر علی حاجی کو تمغہ امتیاز دینے کے موقع پر ان کی غیر موجودگی نے بھی معاملات کو مزید خراب کر دیا۔

تاہم کچھ مبصرین نے ان کی غیر موجودگی کو احتیاطی تدابیر قرار دیا۔

جواب دیں

Back to top button