سپیشل رپورٹ

کونسے اسباب اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے سے روک رہے ہیں؟

اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اس ماہ کی پہلی تاریخ کو ایرانی میزائل حملے کے جواب میں ایرانی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کو مسترد کر دیا تھا تاہم تل ابیب میں کچھ انتہا پسند آوازوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا مطالبہ کیا تھا۔

لیکن یاد رہے امریکی موقف سے قطع نظر اسرائیل کو اس خطرناک فیصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو اسے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کی حمایت کے بغیر اس پرخطر فیصلے سے اسرائیل کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے اسرائیل تہران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے بجائے حملے کو مزید موخر کرے گا۔

مشکلات کیا ہیں؟

شاید پہلا مسئلہ فاصلے میں ہے کیونکہ اسرائیل ایران کے اہم ایٹمی اڈوں سے ایک ہزار میل سے زیادہ دور ہے۔ ان تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو اردن، عراق، شام اور شاید ترکی کی فضائی حدود سے گزرنا ہوگا۔ اگلی مشکل ایندھن کی ہے کیونکہ امریکی کانگریس کی ریسرچ سروس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی طیارے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اتنا فاصلہ اڑتے ہیں کہ پھر واپس آنے کے لیے انہیں ہوائی ایندھن بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔

تیسری مشکل ایرانی فضائی دفاع  ہے۔ جو ایران نے ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ہوا ہے اور ایران پہلے سے ہی ریڈ الرٹ پوزیشن پر ہے۔ خاص طور پر چونکہ ملک کے اہم ایٹمی مقامات کی سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ اسرائیلی بمبار طیاروں کو لڑاکا طیاروں کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق اس کے لیے تقریباً 100 طیاروں کے سٹرائیک پیکج کی بھی ضرورت ہوگی جو آئی اے ایف کے 340 جنگی صلاحیت والے طیارے کے تقریباً ایک تہائی کے برابر ہے۔

بھرپور تحفظ

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایران کی دو اہم جوہری افزودگی کی تنصیبات، نطنز وفوردو بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ اور ان حفاظت کیلئے ایران حکومت نے بڑے سخت انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ نظنز کی سہولت زیر زمین بہت گہرائی میں واقع ہے۔ فوردو ایک پہاڑ کے مرکز میں واقع ہے۔ اس کی تباہی کے لیے ایسے ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی ہے جو پھٹنے سے پہلے دسیوں میٹر چٹان اور مضبوط کنکریٹ میں گھس سکیں۔

اگرچہ تل ابیب کے پاس پہلے سے ہی بنکر کو تباہ کرنے والے بم موجود ہیں جیسا کے اس کے پاس دو ہزار پاؤنڈ وزنی GBU-31 بم ہیں۔ ان بموں کو اسرائیلی فضائیہ نے تقریباً دو ہفتے قبل بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو مارنے کے لیے چار عمارتوں پر گرایا تھا۔ تاہم یہ بم مذکورہ دو تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ .

تجزیہ کاروں کے مطابق اس کام کو کرنے کی صلاحیت رکھنے والا واحد ہتھیار GBU-57A/B (MOP) ضخیم بم ہے۔ یہ تقریبا 6 میٹر لمبا اور 30000 پاؤنڈ وزنی بم ہے۔ یہ پھٹنے سے پہلے 60 میٹر تک زمین کے اندر گھس سکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیل کے پاس ایسے بم ہیں جو امریکہ کے پاس ہیں۔

اسرائیلی وزارت دفاع کے سابق محقق ایھود ایلام کے مطابق اگر اسرائیل MOP حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کے F-15، F-16 اور F-35 جنگجو اسے لے جانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ایلام نے کہا کہ مزید برآں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل ایک امریکی سٹریٹجک بمبار طیارہ خریدنے کے قابل ہو گا۔

لہٰذا اہم ایرانی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچانے کے لیے جس پیمانے پر طاقت کی ضرورت ہے تو اس کے لیے وسیع پیمانے پر امریکی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ بعض اسرائیلی ذرائع نے اسرائیل کی جانب سے ایران کے اندر تیل کی تنصیبات اور پاور سٹیشنوں کے ساتھ ساتھ اہم فوجی مقامات پر حملے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ تہران نے اس بار کسی بھی اسرائیلی حملے کا سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ خطے میں ایک جامع علاقائی جنگ شروع ہونے کے بارے میں بین الاقوامی خدشات بڑھ گئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button