
پاکستانی کرکٹ اس وقت ایک بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ ایک جانب ٹیم میچ پر میچ ہار رہی ہے۔ تو دوسری جانب بورڈ کے مالی معاملات میں بھی سنگین غلطیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
اب ملک کے معروف تحقیقاتی صحافی ابصار عالم نے ایک نئے سکینڈل سے پردہ اٹھا دیا ہے۔
انکی رپورٹ کے مطابق مجھے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی موجودہ لڑائی کے پیچھے ایک بہت بڑا سکینڈل ہے جس کی تحقیقات کے لیے حکومت کو ایک JIT بنانی چاہیے۔
جو لڑائی نظر آ رہی اُس کے پیچھے دراصل ایک بڑی لڑائی ہے جو جوئے، سٹے اور کسینیو کمپنیاں سے متعلق ہے۔
میں اپنی اطلاعات کی بنیاد پر کسی قسم کے الزامات کی بجائے کچھ سوالات اپنے قارئین کے سامنے رکھتا ہوں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں بیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے جوے اور سٹے میں بے حد اضافہ ہوا اور اس کے لیے جس راستہ کو چنا گیا وہ کرکٹ اور پی ایس ایل تھا جو کہ پاکستان میں بے حد مقبول ہے؟
کیا پاکستان کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل کی فرنچائزز نے ان کمپنیوں کو جن کے خلاف حکومت نے کریک ڈاون کا فیصلہ کیا ہے کے آگے بندھ باندھا؟
کیا یہ حقیقت ہے کہ پی سی بی نے نہ صرف خود ایسی سروگیٹ کمپنیز سے معاہدے کیے بلکہ صرف 2023 کے پی ایس ایل میں چھ سروگیٹ کمپنیز کے ساتھ پی ایس ایل کی چار فرینچائززنے لوگو کے معاہدے کر لئے؟
کیا یہ حقیقت ہے کہ کئی چینلز، ویبسائٹس، ریڈیو، وغیرہ پر کھلے عام ان جوئے کی کمپنیوں کے اشتہارات چلتے رہے؟
کیا پیمرا، پی ٹی اے، پی بی اے، اسٹیٹ بنک، آئی پی سی وزارت سمیت کسی ادارے نے اس پر توجہ دی؟
کیا یہ درست نہیں کہ کچھ پیمنٹ کمپنیوں نے ایسی سروگیٹ کمپنیز کو پیمنٹ گیٹویز دے دیئے تا کہ یہ قوم جس کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے وہ بھی جوئے اور سٹہ سے آشنا ہوکر اور اس غیر قانونی اور گناہ کے عمل میں شامل ہو جائیں؟