ایڈیٹوریل

غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش

اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آگ کا گولہ بنادیا ہے۔ فضائیہ، بحریہ اور توپخانے سے رات بھر سے شروع ہونے والا بمباری اور گولہ باری کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے، سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، غزہ میں چہار سو عمارتوں اور دیگر مقامات سے آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دیئے، ایک روز قبل اسرائیلی افواج نے جنگ میں اب تک غزہ میں ایک روز کے دوران سب سے زیادہ بمباری کی ہے،اسرائیلی حملوں میں مزید ہزاروں افراد کی شہادتوں کا خدشہ ہے کیونکہ عمارتوں کے ملبے تلے ہزاروں افراد دبے ہوئے ہیں، صہیونی افواج نے عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اُنہوں نے غزہ پر فاسفورس بموں کا تجربہ کیا ہے۔ فلسطین کے مرکز اطلاعات نے علی الصبح اطلاع دی کہ اسرائیلی طیاروں نے وسطی غزہ پر سفید فاسفورس بم برسائے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اب تک 7ہزار 700سے زائد افراد کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں 3500بچے شامل ہیں جبکہ 20ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ صہیونی افواج نے زمینی جنگ کا بھی اعلانیہ آغاز کردیا ہے۔ اسرائیل کئی دنوں سے جنگی جرائم کا کھلم کھلا ارتکاب کررہا ہے، کیونکہ اِس کا واحد مقصد نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تمام قرار دادیں مسترد کی جا چکی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی امن کے ٹھیکیدار نہ تو امن چاہتے ہیں اور نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی سے اسرائیل کو روکنے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ ماضی کی طرح اب بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے وہ صہونیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اسی لیے اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اُن کے سامنے بے بس ہے وگرنہ۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی بھی جنگ کے دوران خواتین،بچوں اور عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔مگر اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اپنے توسیعی منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا نے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور غزہ پر سینکڑوں ٹن بم گرا رہے ہیں،جس طرح خود امریکہ نے افغانستان پر برسائے تھے، چند روز قبل ہی اسرائیل نے نہتے اور مظلوم فلسطینی مہاجرین کے کیمپ پر دنیا کے خطرناک ترین بم برسائے اور مہاجر کیمپ کو پل بھر میں قبرستان میں بدل دیا۔ بلاشبہ فلسطینی عوام کو بہرصورت قتل کرنے کا کھیل جاری ہے، ہسپتالوں پر بمباری، اشیائے خورونوش اور ادویات کی فراہمی روک دی گئی ہے، معصوم بچے خوراک اور بیمار ادویات کے لیے تڑپ رہے ہیں لیکن اُن کو بارود برسا کر قتل کیا جارہا ہے، انسانیت سوز مظالم عروج پر ہیں مگر کوئی بھی ادارہ بدمعاشوں اور انسانیت کے قاتلوں کا ہاتھ روکنے کو تیار نہیں ہے یہاں تک جو ممالک اسرائیلی بربریت میں اُس کے حصہ دار ہیں اُن کے اپنے عوام لاکھوں، کروڑوں کی شکل میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، دنیا کوئی شہر، قصبہ ایسا نہیں جہاں عوام گھروں سے باہر نکل کر اس بربریت کی مذمت نہیں کررہی، اسرائیل اور اِس کے خواریوں کی مذمت نہیں کررہی۔ مصر کی معروف درس گاہ جامعہ الازہر کے مفتی اعظم پروفیسر ڈاکٹر شیخ احمد طیب نے اسرائیلی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی جو معصوم فلسطینیوں کے دفاع میں ناکام رہے ہیں۔ نہتے فلسطینی صہیونیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں، مائیں اپنے بچوں کو شہادت کے لیے میدانِ جنگ میں بھیج رہی ہیں، فلسطین کی مساجد سے اعلان کیے جارہے ہیں کہ اے اللہ! تیرے سوا ہماراکوئی مدد گار نہیں، تو ہماری مدد فرما۔ کیونکہ جنہوں نے مدد کے لیے آنا تھا سبھی دُبکے بیٹھے ہیں۔موجودہ بربریت پر فلسطین کے ہمسایہ ممالک بالخصوص ایران کی طرف سے بار بارمتنبہ کیاجارہا ہے کہ اِس خونی کھیل کوفوراًروکا جائے وگرنہ خطے میں بھونچال آجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بارپھر کہا ہے کہ غزہ میں شہریوں کے لیے ناقابلِ تصور تباہی ہے، سب اپنی ذمے داریاں ادا کریں، تاریخ ہم سب کا فیصلہ کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی اپنی اور اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی ساکھ اسی صورت بحال ہوسکتی ہے، اگر عالمی طاقتیں ظالم کی بجائے مظلوموں اور سچ کا ساتھ دیں اوراقوام متحدہ سمیت دیگر ادارے اُن کے اثرورسوخ سے باہر نکلیں وگرنہ پوری دنیا دو حصوں تقسیم ہوجائے گا ایک وہ جو مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور دوسرے وہ جو ظالموں کے ساتھ۔ ایسا ہونے کی صورت میں عالمی امن خواب رہ جائے گا اور دنیا کے کونے کونے سے بدامنی کی چنگاریاں نکلیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button