گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ ناگزیر!
شاہد مقصود سرویا
آپ اخبار پڑھیں یا کوئی نیوز چینل دیکھیں، آپ کو مہنگائی سمیت مختلف مسائل کے حوالے سے بتایا جارہا ہوگا۔ قومی اخبارات اورنیوز چینل بار بار اس بات کی طرف اشارہ کرتے نظرآئیں گے کہ ملکی معیشت مسائل سے دوچار ہے۔ ملک کے اندر ترقی کا پہیہ ہر گذرنے دن کے ساتھ جام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ملک کے اندر بے روزگاری کے ساتھ ساتھ غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ زراعت سے لیکر صنعت تک مختلف شعبہ جات توجہ کے متقاضی ہیں۔ اگر زراعت کی بات کریں تو یہ شعبہ اور اس سے وابستہ افراد کی مشکلات ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ ملک میں نہ کھاد سستی ہورہی ہے اور نہ ہی دیگر زرعی مداخل کسان کی پہنچ میں ہیں۔
حکومتی عدم توجہی کے باعث ہر سال ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوتا ہے لیکن کسی حکومت نے کبھی اس کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی۔ گندم ایک اہم غذائی فصل ہے جو ملک میں سب سے زیادہ رقبہ پر کاشت کی جاتی ہے۔ ہرسال کی طرح تادم تحریر امسال بھی حکومت گندم کی امدادی قیمت کے اعلان میں تاخیر سے کام لے رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گندم کم رقبہ پر کاشت ہوگی اور آخر کار پھر وہی آٹے کا بحران پیدا ہوگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اوربیوروکریسی ملکی ترقی کے خواہش مند نہیں ہیں۔ کسان ہر سال گندم کی نئی امدادی قیمت کے اعلان کے انتظارمیں ہوتا ہے مگر حکومت بروقت اعلان نہیں کرتی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ گندم کی بجائی کے سیزن کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل نئی امدادی قیمت کا اعلان کردیا جائے۔اگر ایسا ہوجائے تواس سے یقیناً گندم زیادہ رقبہ پر کاشت ہوگی۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کسی فصل کی کاشت کے سیزن کا آغاز ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کھاد اور بیج مافیا حرکت میں آجاتا ہے۔ مارکیٹ میں ایک دم سے کھاد اور بیج کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب پنجاب کے مختلف حصوں میں آلو کی کاشت کے بعد گندم کی بجائی کا آغاز ہوچکا ہے تو مختلف کمپنیوں کی جانب سے بیج اور کھاد کی قیمت بڑھادی گئی ہے۔
غلہ منڈیوں میں ڈالر کی قیمت میں کمی کا بہانہ بناکر زرعی اجناس انتہائی سستے اموں خریدی جارہی ہیں۔ معاشی مسائل سے دوچار کسان سستے داموں مکئی اور کپاس دینے پر مجبور ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں کمی کے باوجود کھاد سمیت دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسان کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہرسال ایسا ہی ہوتا ہے مگر پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کھاد، بیج، بجلی اورکیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث کسان کے فی ایکڑ اخراجات میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ ہمارے حکمران باہر سے مہنگے داموں گندم خریدنے کے لیے تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن کسان کو فائدہ پہنچانے سے کتراتے ہیں۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ کسانوں کو سستی زرعی مداخل کے ساتھ ساتھ مفت بیج دیاجائے۔ اس سے ہم نہ صرف گندم میں خود کفیل ہوں گے بلکہ قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔ اس سال مفت آٹے کے نام پر شہریوں کو جس طرح ذلیل و خوار کیاگیا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ بعض فلور ملوں سے تو عوام کوایسا آٹا بھی فراہم کیاگیا ہے جسے انسان تو دور کی بات ہے، جانور بھی کھاکر بیماری سے دوچار ہوگئے تھے۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے متعدد فلور ملوں کی جانب سے حکومت اور محکمہ فوڈ کے افسران کو وقتاً فوقتاً آگاہ کیا جاتا رہاکہ ناقص گندم نہ فراہم کی جائے مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ غریب عوام کو مفت آٹا سکیم کے نام پر غیر معیاری آٹا تقسیم کیاگیا۔ سابق وزیراعظم میاں شہبازشریف نے مفت آٹا سکیم تو شروع کردی تھی لیکن وہ اس ثمرات غریب عوام تک پہنچانے میں بری طرح سے ناکام ہوئے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے ماضی میں بھی ایسی ہی متعدد سکیمیں شروع ہوتی رہی ہیں مگر غریب عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہ مل سکا۔ خدا کرے میرے ارض وطن میں کبھی بھی غذائی قلت پیدا نہ ہو۔ خوردنی تیل سے لیکر دالوں اور گندم سے لیکر چاول تک ہر زرعی جنس میں خود کفیل ہوجائیں۔ صوبہ پنجاب ایشیا کی فوڈ باسکٹ کہلاتا ہے۔ یہاں مختلف پھلوں سے لے کر گندم، چاول، مکئی، کپاس اورگنا سمیت ہر فصل کاشت ہوتی ہے۔ یہاں کا کسان بھی محنتی ہے۔ بات صرف زراعت کے شعبہ سے فائدہ اٹھانے کی ہے، لیکن ایسا ہماری حکومتیں کرنہیں رہیں۔ دنیا میں پاکستانی چاول اور پھلوں کی بہت زیادہ مانگ ہے لیکن حکومتی سطح پر غفلت، ایکسپورٹرز کو سہولیات نہ دینے اور غلط پالیسیوں کے باعث اعلیٰ قسم کے پھل، سبزیاں اور زرعی اجناس مقامی منڈیوں میں ہی سڑتے رہتے ہیں اور کسان کو جب اس کی فصل کا پورا معاوضہ نہیں ملتا تو وہ خسارے کا شکار ہوکر کھیتی باڑی چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے پنجاب حکومت گندم کی نئی امدادی قیمت کا فوری اعلان کرے۔ کسان پریشان ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی متحرک شخصیت ہیں، ان سے امید ہے کہ وہ کسان کو مایوس نہیں کریں گے۔