فتویٰ برائے شجر کاری!!

محمد انور گریوال
لاہور کی دو تنظیموں نے باہمی اشتراک سے شجر کاری کی مہم کا فیصلہ کیا ہے، مہم کو کارگر اور کامیاب بنانے کے لیے انہوں نے مفتیانِ کرام، شیوخ القرآن اور شیوخ الحدیث کی مدد حاصل کی ہے۔ یوں سو سے زائد مندرجہ بالا حضرات نے فتویٰ جاری فرما دیا ہے، کہ ہر شخص اپنی زندگی میں کم از کم پانچ سو درخت لگاکر یا لگوا کر سنتِ نبویﷺ پر عمل کرے اور ثوابِ دارین کے حصول کے ساتھ ساتھ صدقہ جاریہ کی سعادت حاصل کرے۔ اِن حضرات و شیوخ کی طرف سے تجویز دی گئی ہے کہ نوجوانوں اور دیگر افرادکو اِس جانب راغب کرنے کے لیے اُن کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بناتے وقت بھی اُن سے ماضی میں لگائے گئے پانچ سو پودوں کی فہرست طلب کی جائے۔یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ گھر کے صحن اور گھر سے باہر صفائی کا خیال رکھا جائے۔
سرکاری سطح پر تو یہ نیک کام حکومت اور حکومتی ادارے کرتے رہتے ہیں، مفتیانِ کرام اور شیوخ حضرات نے اِس کا بیڑہ اب اٹھایا ہے۔ آلودگی کے عالمی دن پر یہ سرگرمی دلچسپ اور خوش آئند ہے۔ اِس عمل کو مزید کارگر بنانے کے لیے نوجوانوں سے شادی کے موقع پر بھی پودوں کی فہرست طلب کی جاسکتی ہے۔ اپنے ہاں نکاح ٹوٹنے کے فتوے بڑے زور و شور سے دیئے جاتے ہیں، کسی بھی چھوٹے موٹے اور غیر روایتی جرم کر لینے پر علمائے کرام کی طرف سے سب سے پہلی زد نکاح پر ہی پڑتی ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جرم کرنے والے ناہنجار لوگ فتوے پر عمل پیرا ہوتے دکھائی نہیں دیتے، اور نکاح کے معاملہ میں رجوع یا توبہ وغیرہ کا اہتمام نہیں کرتے، اب یہ نہیں معلوم کہ اِ س دہرے جرم کی کیا سزا تجویز ہوتی ہے، خاص طور پر علماء کی حکم عدولی مزید خطرناک جرم ہے۔ بات شجر کاری سے چلی تھی، نکاح کی ٹوٹ پھوٹ تک پہنچ گئی۔ شجر کاری مہم ایک محبوب اور مرغوب مشغلہ ہے، جسے وقت بے وقت چلانے کا چلن عام ہے۔ اب بہت سی نجی تنظیمیں اور افراد بھی اس نیکی میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مفتیانِ کرام حضرات نے یہ نہیں بتایا کہ ہر فرد پانچ سو پودے لگانے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا اور یہ بھی کہ وہ یہ کام کہاں سرانجام دے؟
بہت پہلے نیکی کر کے دریا میں ڈالی جاتی تھی، جس کی وجہ سے دریا سال بھر بہتے تھے، اُن کی حُسن و خوبی سے دنیا فائدے اٹھاتی تھی اور دل لبھاتی تھی، اب چونکہ لوگوں نے نیکیاں کرنے کے بعد انہیں دریا کی بجائے ”فیس بک“ میں ڈالنا شروع کر دیا ہے، اِس لیے دریا روٹھ گئے ہیں، منہ موڑ گئے ہیں اور خشک ہو گئے ہیں۔ رہی بات نیکیوں کی، نیکیاں بھی اپنی تاثیر کم کر بیٹھی ہیں، بلکہ کھو بیٹھی ہیں۔ اب زیادہ تر شجر کاری کسی مجبوری میں، یا کسی دکھاوے وغیرہ کے ماحول میں کی جاتی ہے، بہت کم نیکی اور صدقہ جاریہ کے تصور سے ہوتی ہے۔ اگرچہ خوبصورت پودے بھی صدقہ جاریہ کے ضمن میں آتے ہیں، مگر اصل چیز سایہ، لکڑی اور پھل تھے، جن کا وجود کم ہو رہا ہے۔
شجر کاری مہمات در اصل ”شجر اکھاڑی“ اور ”خزانہ اجاڑی“ مہمات ہوتی ہیں۔ ورنہ جتنے برسوں سے یہ مہمات جاری ہیں اور حکومتی سطح پر جتنے اخراجات اُن پر اٹھائے جاتے ہیں، اب تک پورا پاکستان گل و گلزار بن چکا ہوتا۔ مگر افسوس ہوتا ہے کہ شہروں کے اندر بھی ایسے بے شمار مقامات اور مواقع موجود ہیں، جہاں اِ س مہم کا شوق عملی طور پر پورا کیا جاسکتا ہے۔ بڑی سڑکوں کے کناروں پر،پارکوں میں اور بڑے تعلیمی اداروں میں ابھی تک بے شمار درختوں کی گنجائش موجود ہے۔ ایسی سرکاری مہمات میں درخت لگا تو دیئے جاتے تھے، مگر اُن کی حفاظت کا ذمہ دار کسی کو قرار نہیں دیا جاتا تھا، یا پھر ذمہ دار لوگ اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتے تھے۔ تاہم اب حکومتوں نے کچھ ادارے ایسے بنا دیئے ہیں، جو پودے لگاتے، لگواتے اور کسی حد تک ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ چند دہائیاں قبل نہروں اور سڑکوں کے کنارے بہت بڑے بڑے درخت ہوتے تھے، وہ آہستہ آہستہ پہلے خشک ہوئے اور پھر مافیا نے دیمک کی مانند انہیں منظر سے یوں غائب کیا جیسے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ نہروں اور سڑکوں کے کنارے اب بھی بڑے درختوں کی باقیات وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ اب درختوں کی جگہ پر درخت نہیں بلکہ پودے لگائے جاتے ہیں، جن سے نہ تو سایہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اُن کی لکڑی کار آمد ہوگی، دیکھنے کو وہ سبزہ ہے، پھولوں وغیرہ کی وجہ سے خوبصورتی میں پہلے سے بہتر ہے، مگر جس درخت نے کئی دہائی تک زندگی گزارنی ہوتی تھی وہاں یہ پودے چند برس کے مہمان ہوتے ہیں، یوں پرانے پودوں کو اکھاڑنے، نئے پودے لگانے اور اُن کی دیکھ بھال کرنے میں بہت سے محکموں اور افراد کا روز گار بھی وابستہ ہے، چیز بھی کام کی نہ ہو، مصروفیت بھی لگی رہے اور خرچہ پانی بھی چلتا رہے، اور کیا چاہیے۔
شجر کاری ہمارے دین کا اہم حصہ ہے، جہاں شجر کاری کرنے کا حکم تھا وہاں جنگوں وغیرہ میں جہاں خواتین، بزرگوں اور بچوں کے لحاظ کا کہا جاتا تھا وہا ں فصلوں اور درختوں کو تباہ کرنے سے بھی سختی سے منع کیا گیا تھا، یوں آلودگی کے خاتمے میں مذہب تو ویسے ہی سب سے آگے ہے، صفائی نصف ایمان کا حکم ہمیں ڈیڑھ ہزار برس قبل مل چکا تھا۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا ذکر ہو یا پھر شجر کاری کی منصوبہ بندی، شجر کاری کے لیے بہرحال دو موسم ہی زیادہ مناسب ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے شہر میں سرکاری انتظامیہ اور ایک دو نوجوان لڑکوں نے مل کر ایک ہی دن میں لاکھوں پودے لگانے کا ریکارڈ قائم کیا، جوکہ ”گینز بک آف ریکارڈ“ تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ مگر یہ کارنامہ دسمبر کے اواخر میں سرانجام دیا گیا۔ اگر ڈیڑھ ماہ مزید انتظار کر لیا جاتا تو اِس کام کے لیے مثالی موسم ہوتا، مگر نہ جانے کیا مجبوری تھی کہ ایسا کیا گیا۔ بہرحال اگر کسی کو نیکی (یا مجبوری) میں یہ کام کرنا ہی ہے تو موسمِ بہار (فروری) اورموسمِ برسات (جولائی)کا خیال لازمی رکھنا چاہیے، اور اگر کہ پودا لگا رہے ہیں تو یہ خیال بھی رکھیں کہ اِن کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی بچوں کی طرح کرنا پڑتی ہے۔