کیا جنرل (ر) فیض سیاستدان علی رضا عابدی کو قتل کروانے میں ملوث تھے؟
سینیئر صحافی ابصار عالم نے گذشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے 2018 میں ہوئے قتل کے ڈانڈے بھی جا کر سابق ISI سربراہ فیض حمید کے ماتحت ایک افسر سے جا کر ملتے ہیں۔ ابصار عالم کے اس بیان نے ایک بار پھر ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
اس سے قبل فیض حمید پر کچھ لوگوں کی جانب سے صحافی ارشد شریف مرحوم کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگتا رہا ہے لیکن علی رضا عابدی کے حوالے سے یہ انکشاف پہلی بار سامنے آیا ہے۔
سینیئر صحافی محمد بلال غوری کے مطابق ٹاپ سٹی کیس کے مالک عبدالمعیز کنور کا تعلق بھی حکومت کی ایک اتحادی جماعت MQM سے ہے اور 2017 میں جب ٹاپ سٹی کے خلاف آپریشن کیا گیا تو اس وقت بھی میڈیا میں یہی خبریں چلوائی گئی تھیں کہ اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں MQM سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد چھپے بیٹھے ہیں اور ان کے خلاف سکیورٹی اداروں نے کارروائی کی ہے۔
محمد بلال غوری کے مطابق سید علی رضا عابدی نے بھی ٹاپ سٹی سکیم میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ بلکہ زیادہ سرمایہ کاری ہی علی رضا عابدی کی تھی۔ عابدی چونکہ میڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے تھے، وہ کچھ اینکرز کو اس حوالے سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے تھے اور ان کے ذریعے ٹاپ سٹی اور عبدالمعیز کنور کے لئے آواز بھی اٹھا رہے تھے۔
علی رضا عابدی نے اپنے قتل سے کئی برس قبل 20 اگست 2013 کو ٹوئیٹ کی تھی جس میں وہ اسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک بار بی کیو پارٹی میں شریک تھے اور اس کی تصویر بھی انہوں نے ٹوئیٹ کی تھی۔
اس کے بعد مئی 2017 میں The Nation کی خبر آئی تو انہوں نے اس خبر کو ٹوئیٹ کیا اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس میں لانے کے لئے ایک اور ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے اسلام آباد کے کاروباری افراد اور عام شہریوں کی توجہ بھی اس طرف دلائی۔
بلال غوری کا کہنا ہے کہ علی رضا عابدی کا راستے سے ہٹایا جانا فیض حمید کے لئے ضروری تھا کیونکہ اس کے ہوتے سوسائٹی پر قبضہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
بشکریہ نیا دور