سپیشل رپورٹ

امریکیوں کا خوف کہ ایران کے پاس بہت سے آپشنز ہیں

ایک امریکی اہلکار نے ’العربیہ‘ اور ’الحدث‘ چینلوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’برداشت کا مرحلہ ختم ہو گیا ہے، پچھلے چند گھنٹوں میں مشرق وسطیٰ کا خطہ "مشکل دنوں” کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس لیے اب کچھ بھی ہوسکتا ہے‘۔

ایران کا اپنے آپشنز پر غور

مشرق وسطیٰ میں ہر بڑے واقعے کے بعد امریکی اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ فریقین کیا کرتے ہیں، خاص طور پر ایران کے آپشنز کو دیکھا جاتا ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہوا ہے کہ جب بھی ایران پر حملہ ہوتا ہے وہ اندرونی بحث کے دنوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کےوفادار گروپ بھی حرکت میں آتے ہیں۔ ایسے میں ایرانی ریاست مجوزہ اور ممکنہ آپشنز کا مطالعہ کرہی ہے،پاسداران انقلاب ایرانی گائیڈ کو شامل کرنے کی تجویز پر عمل کرسکتے ہیں۔

امریکی ایجنسیاں اس مرحلے کو "اجازت والا مرحلہ” سمجھتی ہیں۔ اس دوران ایرانی ردعمل میں تاخیر ہوتی ہےتو وہ اسے لفظی طور پر "میٹھا مرحلہ” کہتے ہیں۔تاہم امریکی ایجنسیاں یہ بھی جانتی ہیں کہ ان دنوں میں ایرانی اپنے منصوبے تیار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایرانی حملے کا جواب دیں گے۔ امریکی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ برداشت کا یہ مرحلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب "مشکل دنوں” کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔اس دوران ایران تہران میں حماس کے رہ نما اسماعیل ھنیہ کے قتل کا جواب دے سکتا ہے۔ حزب اللہ بھی تیار ہو جائے گی۔ وہ اپنے کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا جواب دے گی۔

امریکیوں کے پیغامات

امریکیوں نے اس رعایتی مدت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تہران اور اس سے وابستہ فریقوں کو پیغام پہنچایا کہ تمام امریکی بیانات اس بات پر متفق ہیں کہ واشنگٹن کوئی کشیدگی نہیں چاہتا۔ امریکہ نے یہ پیغام تہران تک پہنچانے کے لیے تمام دستیاب سفارتی ذرائع استعمال کیے ہیں۔

بہت سے امریکی حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ واشنگٹن نے اس پیغام کو پہنچانے کے لیے منظور شدہ سفارتی ذرائع جیسے کہ تہران میں سوئس سفارت خانے کا استعمال کیا۔ اس نے برطانوی وزیر اعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر جیسے اتحادیوں کے ذریعے بھی تہران کو پیغام پہنچایا۔ کہ وہ ایرانی صدر سے کہیں کہ امریکہ اور باقی فریقین کشیدگی نہیں چاہتے۔

امریکیوں کے لیے خوف

امریکیوں کو خدشہ ہے کہ تہران نے "برداشت کی مدت” کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گذشتہ 13 اپریل کے حملے سے بڑے اور بدترین حملے کو منظم کرنے کے لیے تیاری کررہا ہے۔ امریکیوں کا اندازہ ہے کہ ایران کے پاس بہت سے آپشنز ہیں۔ خاص طور پر ایرانی سرزمین سے براہ راست حملہ کرنا ایک آپشن ہے مگر لبنان ، شام، عراق اور یمن میں وہ اپنی ملیشیاؤں کی مدد سے بھی حملے کا آپشن استعمال کرسکتا ہے۔

ایک سے زیادہ امریکی عہدیدارجنہوں نے العربیہ اور الحدث سے بات کی تھی نے خاص طور پرخدشہ ظاہر کیا کہ ایران یا اس سے وابستہ ملیشیا عراق اور شام میں تعینات امریکی فوجیوں پرحملے کریں گے۔ ایک عہدیدار نے کہا کہ ان فوجیوں کو خطرہ لاحق ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ انہیں نقصان پہنچے۔

واضح رہے کہ امریکی اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر کیے گئے ایرانی حملے کا مطلب صرف اسرائیل کی سلامتی ہی نہیں بلکہ امریکیوں کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔ یہی بات امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ میں شدید تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ خاص طور پر وزارت دفاع پر اس کا دباؤ بڑھ رہا ہے جو مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے فوجیوں کی براہ راست ذمہ دار ہے۔

امریکی حملے کا انداز

جو چیز ان "مشکل دنوں” کے خطرات کو بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایران نے ابھی تک یورپی کوششوں یا امریکی پیغامات کا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں دکھایا ہے۔ایرانی رہ نماؤں کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تہران درحقیقت حملے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ ایرانی دھمکیوں میں اضافے کا جواب مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مزید افواج کو متحرک کرنا اور دفاعی انداز سے حملے کے موڈ میں منتقل کرنا ہے۔

کشیدگی کے آغاز کے بعد سے واشنگٹن نے مشرقی بحیرہ روم، بحیرہ احمر اور خلیج عرب کے پانیوں میں اضافی بحری دستے تعینات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں میزائل شکن میزائل بیٹریاں بھی تعینات کی ہیں۔یہ واضح ہے کہ تعیناتی کے نقشے کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران اور اس کی ملیشیاؤں کے کسی بھی بڑے حملے کا مقابلہ کرنے اور اس حملے کو ناکام بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

لیکن پچھلے دو دنوں میں امریکی صلاحیتوں میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے طیارہ بردار بحری جہاز لنکن کو مشرق وسطیٰ کی طرف زیادہ تیزی سے روانہ ہونے کو کہا ہے۔ اس نے ایک امریکی آبدوز کو ٹوماہاک میزائل لے جانے کی ہدایت کی ہے۔

جواب دیں

Back to top button