غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا اب بھی کیوں نا ممکن ہے؟

غزہ میں جنگ بندی کے لیے کوشاں بین الاقوامی ثالثوں کو امید ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تعطل کا شکار جنگ بندی مذاکرات ایک نئے دور کے ذریعے دوبارہ شروع کریں گے جس کا مقصد بالآخر دونوں فریقوں کے درمیان کسی معاہدے تک پہنچنا ہے، لیکن اس کے باوجود کسی پیش رفت کی امیدیں روشن نظر نہیں آتیں۔
مذاکرات کا ایک نیا دور جمعرات کو شروع ہونے والا ہے، لیکن اسرائیل اور حماس دو ماہ سے زیادہ عرصے سے ایک بین الاقوامی حمایت یافتہ تجویز کا مطالعہ کر رہے ہیں جو 10 ماہ سے جاری جنگ کو ختم کر دے گی اور غزہ میں اب تک رہ جانے قید 110 قیدیوں کو رہا کرے گی۔
اس عرصے کے دوران بالواسطہ بات چیت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس کے اہم نکات حل طلب ہیں اور نئی شرائط نے پیش رفت کے امکانات کو پیچیدہ بنا دیا۔ حماس نے بھی ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ آیا وہ نئے دور میں شرکت کرے گی یا نہیں۔
دوسری طرف غزہ میں لڑائی جاری ہے۔ قیدی ابھی تک قید میں ہیں اور ایک طرف اسرائیل اور دوسری طرف ایران اور لبنانی حزب اللہ کے درمیان علاقائی جنگ چھڑنے کا خدشہ بدستور موجود ہے۔ تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کی ہلاکت کے بعد ایران اور اسرائیل ایک بار پھر جنگ کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں۔
یہاں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر ایک نظر ڈالی جا رہی ہے تاکہ دیکھا جائے کہ جنگ بندی کے حوالے سے کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی ہے۔
تجویز کیا ہے؟
گذشتہ 31 مئی کو امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے کی تفصیلات پیش کیں اور کہا کہ وہ جن تجاویز کی بات کررہے ہیں وہ ایک اسرائیلی جنگ بندی کی تجویز ہے۔اسے انہوں نے مستقل جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے "روڈ میپ” کے طور پر بیان کیا۔ اس کے بعد جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششیں بھرپور طریقے سے شروع ہو گئیں۔
تجویز میں تین مراحل شامل ہیں
یہ تجویز تین مراحل پر مشتمل تھی۔ تجویز دی گئی تھی کہ پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہے گا اور اس میں مکمل جنگ بندی، غزہ کے تمام گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور رہائی کے بدلے متعدد قیدیوں، خاص طور پر خواتین، بوڑھوں اور زخمیوں کی رہائی شامل ہے۔ فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں کو واپس جانے اور مزید انسانی امداد کے داخلے میں سہولت فراہم کرنے کے علاوہ سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی اس مرحلے کا حصہ تھی۔
دونوں فریق اس چھ ہفتے کی مدت کو دوسرے مرحلے پر بات چیت کے لیے استعمال کریں گے، جس میں بائیڈن نے کہا کہ باقی تمام زندہ قیدیوں کی رہائی، بشمول مرد فوجیوں کی رہائی، اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا، اور جنگ بندی کی عارضی سے مستقل میں منتقلی شامل ہے۔
تیسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی کے لیے تعمیر نو کا ایک بڑا منصوبہ شروع کرنے کی تجویز شامل تھی جو کئی دھائیوں پر محیط ہوگا۔
حل طلب نکات کیا ہیں؟
اگرچہ بائیڈن نے اس تجویزپر عمل درآمد کے لیے اپنا بھرپور وزن ڈالا لیکن اس سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد دونوں فریق مزید الگ دور گئے ہیں۔
اسرائیل نے منصوبے کی ایک شق کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا جس میں مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے دوران ابتدائی جنگ بندی میں توسیع کی بات کی گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو تشویش ہے کہ حماس غیر معینہ مدت تک بے نتیجہ مذاکرات جاری رکھے گی۔
حماس کو اس بات پر تشویش تھی کہ اسرائیل اپنے کچھ قیدیوں کی واپسی کے فوراً بعد جنگ دوبارہ شروع کر دے گا، جیسا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے کچھ حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسرائیل مذاکرات کے اس مرحلے کے دوران ایسے مطالبات بھی کر سکتا ہے جو ابتدائی معاہدے کا حصہ نہیں تھے۔ایسےمطالبات حماس کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔
مذاکرات سے واقف حکام کے مطابق اسرائیل نے حال ہی میں ابتدائی معاہدے کی تجویز میں دیگر مطالبات شامل کیے ہیں۔ منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں نیتن یاہو کے دفتر نے اس کی تردید کرتے ہوئے اضافی شرائط کو "بنیادی وضاحتیں” قرار دیا۔ اسرائیل نے کہا کہ حماس نے 29 مطالبات اور شرائط شامل کیں تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون کون سے مطالبات اور تجاویز ہیں۔
مصری حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل صلاح الدین کوریڈور (فلاڈیلفیا کوریڈور) پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس زیر زمین سرنگوں کے ذریعے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتی ہے۔
مگر مصر فلاڈیلفیا محور کواسمگلنگ کے لیے استعمال کیےجانے کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
اسرائیل غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی مشرقی اور مغربی سڑک کے ساتھ اپنی افواج کی موجودگی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ وہ شمالی غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والے کسی بھی "عسکریت پسند” کو ختم کر سکے۔ نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل اس کی ضمانت دینے کا کوئی طریقہ چاہتا ہے لیکن اس نے اس بات سے انکار کیا کہ یہ ایک اضافی شرط ہے۔ حماس نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اسے فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روکنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرے گا۔
باخبر حکام اور نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کا حق بھی مانگتا ہے جب کہ حماس اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت کو مسترد کرتی ہے۔
اسرائیل کے مطالبات میں سے ان قیدیوں کے ناموں کی فہرست بھی حاصل کرنا ہے جو ابھی تک زندہ ہیں، جسے حماس نے مسترد کر دیا۔ حکام کے مطابق انہوں نے یہ شرط رکھی کہ ان کی شناخت خفیہ رکھی جائے کیونکہ وہ میڈیا کے ساتھ ان حساس مذاکرات پر بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
کون سی وجوہات پیش رفت میں رکاوٹ ہیں؟
گذشتہ ماہ مذاکرات میں مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جب حماس کے رہ نما اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں ایک دھماکے میں مارے گئے۔ اس حملے کا بڑے پیمانے پر الزام اسرائیل پر لگایا گیا جس کی نہ تو تصدیق کی گئی اور نہ ہی تردید۔ امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ اس قتل سے جنگ بندی کی کوششوں کو "مدد نہیں ملی” اور مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔
یہ قتل حزب اللہ کے ایک اہم کمانڈر کے بیروت پر ایک فضائی حملے میں مارے جانے کے چند گھنٹے بعد ہوا ہے۔ دونوں کارروائیوں نے ایران اور حزب اللہ کی طرف سے بدلہ لینے کے خطرے کو جنم دیا اور خطے کو ایک علاقائی جنگ کے دھانے پردھکیل دیا۔
نیتن یاہو اور حماس کے نئے رہ نما یحییٰ السنوار دونوں ہی جنگ جاری رکھنے کے محرکات رکھتے ہیں۔
نیتن یاہو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سیاسی بقا کے لیے جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔