اجناس درآمد کرنیوالا زرعی ملک

عاطف ملک
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اِس خوش گمانی نے ہمیں بچپن ہی سے بہت زیادہ متاثر کیا ہوا ہے۔دیکھا جائے تو ہمارے وسائل بڑھنے کی بجائے کم ہو رہے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔پاکستان میں زیر کاشت رقبہ قریباً بارہ کروڑ پچاسی لاکھ سات سو اسی ہزار ایکڑ ہے جبکہ گندم ملک کے سینتیس فیصد زیر کاشت رقبے پر ہے، ایک تحقیق کے مطابق ہر پاکستانی اوسط ایک سو چوبیس کلو گرام گندم سالانہ کھاتا ہے مگر زرعی ملک ہونے کے ساتھ ہم لوگ دوسرے ممالک سے گندم لینے پر مجبور ہیں کیوں کہ گزشتہ سال بھی اسی فیصد گندم ہم نے روس اور یوکرین سے درآمد کی تھی۔زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے۔پاکستان کی بے چاری عوام کے لیے مشکل یہ ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، آٹے کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں 25 روپے کی بھی روٹی بہت مشکل سے مل رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ پاسکو گندم خریداری کا ہدف حاصل نہیں کر سکا،جس کے بعد حکومت نے 10لاکھ ٹن گندم درآمدکرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاسکو کی 75 فیصد گندم خریداری کے باعث حکومت نے 86 ارب روپے مالیت کی 10لاکھ ٹن گندم درآمدکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نگران حکومت گندم کی درآمدکرنے کے لیے گندم کی امدادی قیمت بڑھانے پرغورکررہی ہے، اور ضرورت کی باقی گندم حکومتی سطح پر روس سے خریدی جائے گی۔زرعی ملک ہونے کے ناطے یہ پاکستان کے لیے انتہائی شرمناک عمل ہے کہ ہمیں آنے والے دنوں میں گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور ایسا کئی سال سے ہورہا ہے کہ ہم فوڈ باسکٹ کے طور پر پہچان رکھنے والے اب فوڈ درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے حکمران تو جیسے ہیں وہ تو تبدیل ہونے والے نہیں ہیں، اب ہم عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی زمینوں کا ایک ایک انچ کاشت کریں، گھر میں عورتیں چھوٹی کیاریاں بنا کر سبزیاں وغیرہ کاشت کر سکتی ہیں، ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں، زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ بارشیں زیادہ ہوں اور ہماری زمینیں زرخیز رہیں، کاروں اور موٹروں کا کم سے کم استعمال کریں بجلی کی ہر ممکن طریقے سے بچت کریں، جانور پالیں تاکہ ہماری معیشت پر دباؤ کم ہو، انشاء اللہ ہمارے ملک کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے، مگر سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ملک میں زرعی انقلاب لے کر آئیں، زرعی زمینوں کو زراعت کے لیے مختص رہنے دیا جائے اور جو جہاں ہے وہاں کی بنیاد پر روک دیاجائے، زخیرہ اندوزی بہت بڑی لعنت ہے اوراب تو باقاعدہ طور پر زخیرہ اندوزی کو کاروبار اور جائز سمجھا جانے لگا ہے، کوئی بھی فصل مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی مڈل مافیا کسان سے اونے پونے داموں وہ فصل خرید لیتا ہے، کسان جو پہلے ہی مہنگی زرعی ادویات اور اخراجات کی وجہ سے اب معاشی طور پر نحیف ہوچکا ہے، وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے فصل بیچ دیتا ہے، وہی مڈل مین مارکیٹ میں طلب دیکھ کر وہ فصل کٹواتا ہے اوراپنے گودام میں پہنچا دیتا ہے، جب مارکیٹ میں طلب و رسد میں فرق پیدا ہوتا ہے تب وہ مہنگے داموں اور قیمت خرید سے کئی گنا زیادہ مہنگا فصل مارکیٹ میں لاکر خوب کمائی کرتا ہے، بڑے جاگیر دار تو اپنی فصلوں کومارکیٹ میں لاتے ہی نہیں اور خفیہ گوداموں میں زخیرہ کرلیتے ہیں جب ایسے لوگ بیک وقت اکٹھے ہوجاتے ہیں تو وہی فصل بیرون ملک مہنگے داموں سمگل کردی جاتی ہے، یوں ملک کے ساتھ ایک کے بعد ایک کھلواڑ کیا جارہا ہے۔
کھیت سے فصل بیرون ملک کیسے پہنچتی ہے، نہ تو غباروں کے ساتھ باندھ کر سمگل ہوتی ہے اور نہ ہی جیبوں میں ڈال کر، بڑے بڑے ٹرالر پڑوسی ممالک میں ہماری اجناس سمگل کرنے کی نیت سے داخل ہوتے ہیں مگر وہ کسی ادارے کو نظر نہیں آتے۔ غرضیکہ اِس موضوع پر جتنی بات کی جائے وہ کم ہے، ہم انڈسٹری میں آگے نہ بڑھ سکے لیکن ہم اپنے کھیت بچاکر، اپنی اجناس بیچ کر، روس، یوکرین اور دنیا کے اسی سے زائد ممالک کی طرح اجناس برآمد کرکے زرمبادلہ کمانے والے بن سکتے تھے، مگر یہاں نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر کوئی ڈالر جمع کرکے تجوریاں بھرنے کے چکر میں ہے، کھیت اور کھلیان اُجڑ رہے ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں اگر باقی ماندہ کھیت بھی ختم ہوگئے تو ہمیں ہر خوشہِ گندم کے لیے دوسرے ممالک کی مہنگی ترین گندم کا محتاج ہونا پڑے گا جیسا کہ ہوبھی رہا ہے، گھی کے لیے پام آئل، کئی اقسام کی دالیں، گندم اور بے شمار اجناس ہم دوسرے ممالک سے برآمد کررہے ہیں حالانکہ پہلے ہمارے یہاں کسی چیز کی قلت نہیں تھی، اجناس وافر اور کم قیمت تھیں، کسان اور عام شہری دونوں خوش تھے، اب مڈل مین اور مافیاز خوش ہیں مگر کسان اور عام صارف شہری دونوں رو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے وطن کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں، اگر کسی کو پرواہ ہے تو وہ آگے بڑھے اور اپنے ملک کو بچالے، وگرنہ ہر دن تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔