غیر ملکی شہریوں کی واپسی کا لائحہ عمل

نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بھگٹی نے پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کے متعلق ریاستی پالیسی واضح طورپر بیان کی ہے، غیر ملکی شہریوں کے انخلاء کے لیے حتمی پلان حتمی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لائحہ عمل کے مطابق بلاتمیز و تفریق سبھی غیر ملکی غیر قانونی شہریوں کے خلاف آپریشن ہوگا۔ صوبائی حکومتوں اور دیگر علاقوں میں ہولڈنگ سینٹرز بنا دئیے گئے ہیں جن میں میڈیکل سہولیات اور کھانا پینا فراہم کیا جائے گا۔ بزرگوں، عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھا جائے گا اور یکم نومبر کے بعد کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور غیر قانونی افراد کو جیلوں کی بجائے سینٹرز میں رکھا جائے گا۔ افغانیوں سے متعلق نگران وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ افغانی پچاس ہزار فی کس لیکر اپنے وطن کو لوٹ سکیں گے، اور تمام صوبائی حکومتیں اِس مقصد کے لیے اخراجات کا بوجھ اٹھائیں گی۔ ایک اور اہم بات جو بتائی گئی ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے سہولت کاروں کو بھی سزائیں دی جائیں گی۔ ایک اور اہم بات جس سے اطمینان اور تقویت ملتی ہے کہ وفاقی حکومت غیر ملکیوں کے انخلاء کے لیے واقعی سنجیدگی سے اقدامات کررہی ہے اور کچھ بھی ماضی کی حکومتوں کے اعلانات جیسا نہیں ہورہا وہ یہ ہے کہ غیر ملکی شہروں کی جیو ٹیگنگ کی جاچکی ہے کہ کہاں کہاں غیر قانونی طورپر غیر ملکی شہری موجود ہیں، اگر کسی معاملے میں پیچیدگی سامنے آتی ہے تو اِس کو دور کرنے کے لیے ڈی این اے بھی کروایا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ غیر ملکی شہریوں کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ صد فیصد صائب اور قابل تعریف ہے، ماضی میں جمہوری حکومتوں نے ایسے اعلانات درجنوں بار کیے لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ جو غیر ملکی جس ذرائع سے پاکستان میں آیا وہ یہیں کا یہیں رہ گیا، غیر ملکیوں نے جعلی دستاویزات تیار کرواکے اپنی شناخت تبدیل کرلی، یہاں کاروبار شروع کیے دھڑا دھڑ املاک خریدیں اور نسل بڑھاکر ان کو پاکستانی ہونے کا سرٹیفکیٹ دلوادیا، اگر شروع سے ہی ہم دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے اور افغانیوں کودوسرے ممالک کی طرح مخصوص علاقوں کے مخصوص کیمپوں تک محدود رکھتے تو آج ہم اِس پریشانی سے دوچار نہ ہوتے جو ہم نے افغان پناہ گزینوں کو ملک میں آزاد چھوڑ کر اپنے لیے مول لی ہیں۔ ایران سمیت جن ممالک میں بھی افغان پناہ گزین ہیں وہ ایک ضابطہ کے مطابق وہاں رہ رہے ہیں اور وہاں کی حکومتیں ہمیشہ پناہ گزینوں کے معاملے کو دیکھتی رہتی ہیں مگر ہم نے افغانیوں کے لیے پورا ملک کھلا چھوڑ دیا۔ بھلا دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ کوئی ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر آئے جائے بلکہ چند ٹکٹوں کے عوض شہریت حاصل کرلے مگر ہمارے یہاں ہوتا رہا ہے اور بلاشبہ اب بھی ہوتا رہے گا۔ شہروں پر آبادی کے بوجھ کی صورت میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی پاکستانیوں کے وسائل میں حصہ دار بنے ہوئے ہیں، غرضیکہ کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس میں غیر ملکی شہری خصوصاً وہ افراد جو روانی کے ساتھ ہماری قومی یا علاقائی زبان سیکھ چکے ہیں، وہ لوگ حصہ دار نہ ہوں۔ نگران وزیر داخلہ نے واضح کیا ہے کہ دنیا پاکستان میں آکر ویزہ پالیسی کے تحت سرمایہ کاری کرے گی اور اب ملک میں کوئی بھی غیر ملکی غیر قانونی طور پر مقیم نہیں رہے گابلکہ ان کے سہولت کاروں کا بھی پیچھا کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے چونکہ یکم نومبر تک غیر ملکی شہریوں کو ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہوئی ہے لہٰذا جو غیر ملکی پاکستان میں اپنے قیام کو غیر قانونی سمجھتے تھے وہ افغانستان واپس جاتے ہوئے دیکھے بھی گئے ہیں لیکن جو جعلی دستاویزات کے ذریعے ریاست کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بضد یہاں بیٹھے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ریاست پوری طاقت کے ساتھ ان کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں وطن واپس بھیجے، اِس کے ساتھ ہی اگلا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے کہ کوئی سرحد پار کرے گا اور نہ ہی کسی کو پناہ دینے کے لیے قومی اداروں سے وابستہ افراد سہولت کار بنیں گے۔ حکومت رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپس جانے والوں کو باعزت رخصت کرے اوراُن کی حوصلہ افزائی کرے لیکن جو لوگ ایسا نہیں کرتے اُن سے آہنی ہاتھوں نمٹے کیونکہ چھوٹی سے چھوٹی ریاست بھی ایسی غلطی نہیں کرتی جو کئی دہائیوں سے ہم تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں، اور اِس کے نتیجے میں ہمیں دہشت گردی، منشیات اور اسلحہ کلچر جیسی عفریتوں کا سامناکرنا پڑا ہے۔