عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سابق وزیر اعظم خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جبکہ کیس میں سزا کے خلاف مرکزی اپیلوں پر سماعت 2 جولائی تک ملتوی کردی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا نے درخواستوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے، خاور مانیکا کے وکیل زاہد آصف چوہدری بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میں سزا معطلی کی درخواست پر 7 منٹ دلائل دوں گا، شکایت کنندہ کو اس سے کم وقت میں بھی دلائل دینے چاہیے، آج مرکزی اپیل اور سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے، میری ذمہ داری عدالت کو بتانا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کون ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ان اپیلوں پر پہلے 15 سے زائد سماعتیں 3 ماہ میں ہوچکی ہیں، اس کیس میں کبھی شکایت کنندہ اور کبھی پراسیکیوشن نے کہا کیس پڑھنا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس میں کچھ نہیں، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کیسے دیتے ہیں۔
اس موقع پر وکیل زاہد آصف کا کہنا تھا کہ سلمان صفدر ایک قابل وکیل ہیں اور ہر جگہ ان کی تعریف کی۔ بعد ازاں سلمان صفدر نے کہا کہ اپیل کنندہ سابق وزیراعظم کی اہلیہ ہیں، الیکشن سے قبل عمران خان کو سزا سنائی گئی، عمران خان کے خلاف بے شمار کیسز بنائے گئے ہیں، عمران خان کے کیسز سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ایسی یونیک پراسیکیوشن میں نے آج تک نہیں کی، متعدد کیسز عدالتوں نے اڑا دیئے، سائفر کیس ،توشہ خانہ کیس ،پھر نکاح کیس میں سزا دی گئی جیسے سینما کی اسکرین کا ٹائم، مجھے اس کیس کے شکایت کنندہ سے بھی ہمدردی ہے، سائفر کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو عدالت نے کہا مرکزی اپیل سنیں یا سزا معطلی کی، میں نے کہا مرکزی اپیل ورنہ میرے لیے آسان تھا سزا معطلی پر دلائل دیتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سائفر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا مگر اپیل دائر کردی گئی، ٹرائل میں ہمارے وکلا کو باہر نکالا گیا، دیر تک سماعتیں چلیں، ہائی کورٹ کے لیے آسان تھا کیس ریمانڈ بیک کرنا مگر نہیں ہوا، میرٹ پر فیصلہ ہوا، سائفر کے پاس توشہ خانہ کیس سامنے آیا، اس کیس میں بھی دوسرے طرف کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا، مجھے امید ہے آج بھی دوسری طرف کے وکیل یہی کریں گے، سیشن جج شاہ رخ ارجمند کے پاس بھی مرکزی اپیلیں اور سزا معطلی کی درخواستیں آئی، جب فیصلہ آنا تھا تو ریفرنس بن جاتا ہے اس کے بعد کیس آپ کے پاس آتا ہے
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ مجھے نہیں معلوم عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے مگر جو بھی فیصلہ آیا میں سن کر چلا جاؤں گا، مجھے اختلاف ہوگا تو میں اپیل میں چلا جاوں گا، سلمان اکرم راجا نے ٹھیک کہا تھا کہ میں اس کیس میں پیش ہوتا رہا مجھے فیصلہ چاہیے، اگر اپیلیں ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیر سماعت ہوں تب بھی ہائی کورٹ کے پاس سزا معطلی کے اختیارات ہیں، میری کوشش تھی بشریٰ بی بی عید سے پہلے گھر آجاتیں ، سلمان اکرم راجا صاحب کا کہنا تھا کہ وہی جج فیصلہ کریں جنہوں نے کیس سنا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ جب ہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں گئے تو ایک ایک چیز بتائی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ مکمل طور پر آگاہ ہے کہ نیچے کیا چل رہا ہے، شکایت کنندہ بار بار تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔
اسی کے ساتھ سلمان صفدر نے عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 10 روز میں سزا معطلی اور 30 دن میں مرکزی اپیلوں پر فیصلے کا کہا ہوا ہے، جب سزا دینی ہو تب فٹا فٹ اور اپیل پر دھیرے دھیرے؟
انہوں نے کہا کہا میں اب میں سزا معطلی کی درخواست کے لیگل معاملات پر آتا ہوں، ہم نے اصول سیکھا ہے اپیل میں ججمنٹ پڑھتے ہیں، آپ جیل میں کریمینل کیسز کیلئے اکثر جاتے ہیں، میں جیل میں بینظیر کیس، اجمل قصاب کیس کے لیے جاتا رہا، مگر اب عدت کیس میں جانا پڑا، کبھی لکھا تو اس کیس پر ضرور لکھوں گا، عثمان گِل نے عون چوہدری سے پوچھا آپ نے گھڑی کونسی پہنی تو لڑائی ہوگئی، جج صاحب نے بھی کہا اس سوال کا اس کیس سے کیا تعلق، میں نے کہا میں بتاتا ہوں اس سوال کا مقصد یہ بتائیں گھڑی پر ٹائم کیا ہے تو 8 بجے ہوئے تھے، اس وقت بھی ہماری جرح کا آغاز ہوا تھا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید بتایا کہ اس درخواست میں خاص بات یہ ہے کہ کہا گیا کہ جرم کا ایک حصہ لاہور اور دوسرا اسلام آباد میں ہوا ہے، 496 بی میں فرد جرم لگا ہی نہیں۔
اس پر جج نے دریافت کیا کہ اس میں فرد جرم کیوں نہیں لگی یہ بتائیں فیصلے میں لکھی ہے۔
بشری بی بی کے وکیل عثمان ریاض گل ایڈوکیٹ نے بتایا کہ کیونکہ یہ پرائیوٹ درخواست تھی اس کے لیے دو گواہان کا ہونا ضروری تھا اس وجہ سے اس میں فرد جرم نہیں لگی، سلمان صفدر نے کہا کہ جو کیس یہاں کا بنتا ہی نہیں تھا اس میں سزا دے دی گئی، اسلام آباد میں الزام 496 بی کا تھا مگر وہ دفعات ختم ہوگئیں، جب اسلام آباد کا کوئی الزام ہی نہیں تھا تو کیس کو لاہور جانا تھا۔
اس موقع پر سلمان صفدر نے ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیے۔
انہوں نے کہا کہ میں کئی سالوں سے کریمینل کیسز لڑ رہا ہوں، جب اس کیس کو لڑنے کے لیے پڑھا تو پتا چلا ماضی میں ایسا کیس کسی نے نہیں لڑا، عجیب کیس ہے میاں بیوی دونوں اندر فراڈ، کس نے کس کے ساتھ کیا؟ شکایت کنندہ کہتا ہے کہ زیادتی ہوئی لطیف نے بتایا وغیرہ وغیرہ، ہر درخواست کا ایک ٹائم ہوتا ہے مگر یہاں 6 سال 2 ہزار دنوں بعد درخواست دائر ہوئی، شکایت کنندہ کے گواہان میں اس کے بچے بھی شامل نہیں ہیں، اس کیس میں ایک سیاسی پارٹی کا رہنما گواہ ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے سارے کیسز بہادری سے لڑے، دہشت گردی کے کیسز بناتے کوئی اور بناتے مگر عدت کے دوران شادی کا کیس بنا دیا گیا، الزام ہے کہ عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا گیا، اگر دو خاوند دعویٰ کرتے یا بچوں کے حوالے سے کیس ہوتا تو سمجھ آتا، اس کیس میں تو بچے بھی شکایت کنندہ نہیں ہیں، درخواست گزار کہتا ہے میری ساری فیملی ڈسٹرب ہوئی ہے، استغاثہ کی آدھی باتیں 496 بی کے ختم ہونے پر ہی جھوٹی ثابت ہوگئی، اس کیس کی اہمیت ہوتی اگر بروقت فائل کیا جاتا۔