ایڈیٹوریل

جنرل عاصم منیر سے فلسطینی سفیر کی ملاقات

اسرائیل اور فلسطین میں جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے،اسی لیے مشرق وسطیٰ کی صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے۔ سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر نے فلسطینی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا انسانیت کے خلاف جرائم کا عکاس ہے۔ عالمی برادری اسرائیلی فوج کو جاری مظالم کی حوصلہ افزائی سے باز رکھنے کے لیے متحرک ہو۔سربراہ پاک فوج نے اسرائیلی فوج کے شہری آبادی کو نشانہ بنانے،معصوم شہریوں کے بے دریغ قتل، سکولز، یونیورسٹیز، امدادی کارکنوں اور ہسپتالوں پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیااور 1967 سے پہلے سے سرحدی بنیاد پر قائم فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعادہ کیا۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کے مطابق اسرائیلی فوج نے حماس کی قید میں یرغمالیوں کے ٹھکانے کے حوالے سے درست معلومات دینے والوں کے لیے نقد رقم اور تحفظ فراہم کرنے کااعلان کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے مشرق وسطیٰ سے اپنے لاکھوں شہریوں کے انخلا کی ہنگامی منصوبہ بندی پر کام شروع کردیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اسرائیل نے ایندھن کے بدلے 50 یرغمالیوں کا تبادلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مذاکرات اگلے مرحلے تک پہنچ چکے تھے لیکن اسرائیل مصر کے راستے غزہ تک ایندھن پہنچانے پر راضی نہیں ہوا۔ غزہ کے ہسپتال حملے میں کون ملوث ہے ابھی تک اس کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں آسکا تاہم مغربی میڈیا اور انٹیلی جنس اسرائیل نواز بیانیے کو فوقیت دے رہے ہیں مگر دوسری طرف روسی اور خلیجی میڈیا نے جواباً کہا ہے کہ اگراسرائیل ملوث نہیں تو سیٹلائٹ تصاویر فراہم کرے۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق روس کے رکن پارلیمنٹ آندرے گرولیوف نے حملے میں امریکہ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ گارجین کے مطابق برطانوی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ غزہ کے ہسپتال میں دھماکہ فلسطین کی طرف سے آئے راکٹ سے ہوا۔منگل سترہ اکتوبر کی رات غزہ کے ہسپتال میں دھماکے میں پانچ سو سے زائد افراد کے شہید ہونے اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کی رپورٹ آئی،لیکن ابھی تک ذمہ دار کا تعین نہیں ہوسکا۔ بہرکیف سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر سے فلسطینی سفیر کی ملاقات اور جنرل عاصم منیر کا واضح اور دو ٹوک موقف قابل تعریف ہے۔ مگر ساتھ ہی ہم بات کو بڑھاتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے، کیونکہ دونوں جگہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کفر کو جان بوجھ کر غالب رکھا جارہا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن کشمیر اور فلسطین کے عوام کو کٹنے اور مرنے کے لیے کفار کے آگے دھکیل دیا جاتا ہے، نہ تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل ہورہا ہے اور بھارت کشمیریوں کی تیسری نسل کو بھی مہلک ہتھیاروں سے چھلنی کررہا ہے بالکل اسی طرح امریکہ اور اِس کی آشیرباد کی وجہ سے اسرائیل، مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ عجیب ڈھونگ ہے کہ ایک طرف امن کے داعی بنتے ہیں تو امن کی فاختہ اُڑاتے ہیں، خود ساختہ دہشت گردوں کا پیچھا کرتے کرتے مسلمان ممالک کونشانہ بناتے ہیں، ترقی کرتے ملک کھنڈرات کا ڈھیر بن جاتے ہیں مگر جہاں عالمی برادری کا ضمیر جاگنا چاہیے وہاں ہمیشہ ظالم کے شانہ بشانہ مظلوموں کے گلے کاٹنے اور گولیوں سے چھلنی کرنے والوں کا ہر پلیٹ فارم پر ساتھ دیا جاتا ہے جو انتہائی افسوس ناک رویہ ہے۔ عالمی برادری کے دوہرے معیار کی وجہ سے ہی دنیا بارود کا ڈھیر بنی ہوئی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ طاقت ور کب اُس پر بلاجواز حملہ آور ہوجائے پھر جب کشمیر اور فلسطین کی شکل میں دوہرا معیار سامنے آتا ہے تو بھی مسلمان ممالک کو اپنا دفاع مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امن کی تباہی کے ذمے دار شرم سار بھی نہیں ہوتے بلکہ ظالم کی بجائے مظلوم کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں۔ کشمیر پر بات کریں تو اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہے، سکیورٹی کونسل، او آئی سی، انسانی حقوق کے ادارے پوری دنیا کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام پر چیخ رہی ہے مگر امن کے نام نہاد ٹھیکیدار کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کی بجائے غاصبوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور درحقیقت یہی وہ طرز عمل ہے جس نے عالمی امن کو سبوتاژ کررکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کی قراردادوں پر اُن کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا، ظالم کی بجائے مظلوم کاساتھ نہیں دیا جاتا، اور مسلمان ملکوں کو کمزور کرنے کی روش ترک نہیں کی جاتی عالمی امن پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور یہ ایسی بات ہی نہیں جو عالمی طاقتیں نہ جانتی ہوں مگر شاید امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو امن درکار ہی نہیں اور انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ امن کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر نے فلسطین کے متعلق واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا ہے، بلاشبہ پاک فوج ہمیشہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے معاملے پر واضح دوٹوک موقف رکھتی ہے اور ظالم کی بجائے مظلوموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button