پیسہ ہی سب کچھ نہیں ، مگر۔۔!

محمدانور گریوال
ادبی محفل برپا تھی، کچھ شاعر اور ادیب جمع تھے۔ ایک صاحب نے کچھ جذباتی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، محفل کو بتایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، تدریس سے اُن کا تعلق رہا ہے، سرکاری ملازمت سے فراغت کے بعد اب شاعری کیا کرتے ہیں (ملازمت کے دوران بھی یہ مشغلہ جاری تھا)۔ اُن کے خاندان کے مزید چند افراد بھی سخن وری میں اُن کے ہم پیشہ تھے، مگر معلوم یہی ہوا کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں، اُسے شائع کروانے سے قاصر ہیں، محرومیوں اور مجبوریوں کے ذکر نے حاضرین کو کسی حد تک فکر مند کر دیا، صاحبِ صدر نے طول پکڑتی بات کو بہت ہی اخلاق اور سلیقے سے قابو کیا تاکہ ذیلی اور ’سطحی‘ کہانی کو یہاں روک کر اصل بات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پروگرام کے بعد مختلف ٹولیوں کی صورت میں کھڑے لوگ اُن صاحب کی گفتگو پر اپنے اپنے انداز میں چہ میگوئیاں یا تبصرہ کرتے پائے گئے۔
واپسی پر میں اِنہی سوچوں میں گم رہا کہ کیا کوئی غریب آدمی بھی دانشور، شاعر یا ادیب ہے، یا بن سکتا ہے؟ واضح رہے کہ تین چار دہائیاں قبل ایسی واردات ان ہونی نہیں کہلواتی تھی۔ کسی حد تک سادگی کا زمانہ تھا، بہت سے غریب اور نادار لوگ بھی شاعر ہوتے تھے اور انہیں مشاعروں میں اپنی کاوش پیش کرنے کا موقع بھی مل جاتا تھا، اگرچہ اُن کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی تھی۔ ہاں البتہ صحافی ضرور غریب ہوتے تھے، بلکہ اصل صحافی کی پہچان ہی یہی ہوتی تھی کہ وہ ٹوٹی سی سائیکل پر اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتا دکھائی دیتا تھا۔ مذکورہ بالا شاعر کی باتوں سے مجھے اپنے ہی شہر کا ایک ایسا شاعر بھی یاد آگیا، جو صحت مندی کی زندگی میں اپنی بینائی کھو بیٹھا تھا، تب وہ اخبار فروشی بھی کرتا اور شاعری سے دل بھی بہلاتا تھا، پھر یوں ہوا کہ اُس کی دنیا تاریک ہو گئی، دوسرے کیا جانیں کہ آنکھوں کی دنیا میں اندھیر چھا جانے کے بعد دل و دماغ پر کیا بیتتی ہے؟ اِن حالات میںبھی اُس نے اپنی شاعری کو کتابی شکل دینے کی پوری خواہش اور کوشش کی، بہت ہاتھ پائوں مارے مگر کامیابی نہ ہو سکی، بہت سے لوگوں نے اُس کا ہاتھ تھامنے اور اُس کی اُمید بر لانے کے وعدے کئے، مگر کوئی ایفا نہ ہو سکا۔
پیٹ خالی ہو، بچے رو رہے ہوں، اُن کی ماں اپنے مطالبات کے لیے اور گھر کے مسائل پر شوہر سے جھگڑ رہی ہو، خراب معاشی حالات کی وجہ سے زندگی کی ڈوری کے تسلسل کو قائم رہنا مشکل دکھائی دے رہا ہو، تو ایسے میں ادب اور شاعری کے تخلیق پانے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ محفل ادبی ہو یا مذہبی یا پھر سیاسی ،حالات سے پریشان انسان ذہانت کے تمام تر معیارات پر پورا اترنے کے باوجود خاموشی کو ہی ترجیح دیتا ہے، کیونکہ حالات کی تنگی اُس کے تخیلات کو محوِ پرواز نہیں ہونے دیتی، خشک زمینوں میں نئے تصورات کی فصل نہیں اُگا کرتی، بنجر زمین پر سبزہ سر نہیں اٹھاتا، گھٹن کے ماحول میں کوئی اچھوتا خیال ظاہر نہیں ہوتا، حتیٰ کہ چار سُو ادبی گفتگو ہو رہی ہو، قہقہے گونج رہے ہوں یا پھر خوش دلی کے معاملات ہوں، غریب اپنے گھر کے حالات اور مسائل کا ہی شکار رہتا ہے۔ اگر کوئی با ہمت شخص ایسے ماحول میں اپنے جذبات کو شعرو ادب میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جائے تو جان لیجئے کہ شاہکار تخلیق ہوگا، جس کا مقابلہ مصنوعی طریقوں سے نہیں کیا جاسکتا۔
کتنے ہی زرخیز ذہن لوگ ہیں، جن کی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود وہ لکھنے کی طاقت سے محروم ہیں، کہ دماغ میں تخیل ہوتے ہیں، مگر اظہار ممکن نہیں ہو پاتا۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اچھے برے وقت میں بہت کچھ لکھ رہا ہوتا ہے، مگر اُس کے اشاعت پذیر ہونے کی نوبت نہیں آتی۔ مہینوں یا برسوں بعد مسودہ نکالا، گرد جھاڑی، ورق گردانی کی، گہرے خیالات میں غوطہ زنی کی، بے خیالی میں کسی مضمون کو پڑھنا شروع کیا ، اپنے ہی آپ کو اتنی اچھی تحریر لکھنے پر شاباش دی اور حسرتوں سے خیالوں میں گم ہو گئے۔ پھر یوں ہوا کہ مایوسی نے گھیرا تنگ کر دیا، ناامیدگی کی اونگھ سی آئی اور بکھرے ہوئے مسودوں اور گرد آلود ماحول میں نیند سی آنے لگی۔ کاغذات کو ایک بار پھر ترتیب لگا کر رکھ دیا، کہ کسی اور اچھے وقت میں مسودہ نکالا جائے گا، اس کی پروف ریڈنگ کی جائے گی اور اشاعت کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔ امیدوں پر دنیا قائم ہے، ایسا بھی ہوتا ہے ، کہ شاعر یا ادیب دنیا سے کنارہ کر جاتا ہے اور اُس کے لواحقین جانے والے کی باقیات کو ردّی جان کر چند ٹکوں کے عِوض فروخت کردیتے ہیں۔ یا پھر موتیوں جیسے الفاظ سے تیار شدہ مسوّدہ کاغذ کی بوسیدگی کی نذر ہو جاتا ہے، کاغذ صحت مند ہوا تو ردّی فروخت ہوگئی اور جب حرف مِٹ جائے تو خالی بوسیدہ کاغذ کا بھلا کیا مول رہ جاتا ہے؟
دوسری طرف ’’جِیدھے گھر دانے۔۔ اوہدے کملے وی سیانے‘‘ کے مصداق امیر کا ادیب ہونا بھی ضروری نہیں، بس اِدھر اُدھر سے اسباب جمع کئے اور کچھ ترتیب بنا دی، کتاب کی اشاعت کوئی مسئلہ ہی نہیں، جو کام وسائل سے تکمیل کو پہنچنے والا ہو وہاں مسائل نہیں ٹھہرتے، نہ وہاں رونمائی کا ایشو، نہ پذیرائی کا مسئلہ، تبصرے بھی شائع ہو جاتے ہیں اور کالم بھی لکھے جاتے ہیں، تقریبات بھی منعقد ہو جاتی ہیں اور کتاب کی تقسیم کا معاملہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ اپنے تعلقات کی بنا پر لائبریریوں کو فروخت کا مرحلہ بھی بخوبی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے شعر و ادب کی دنیا میں کسی غریب نے شہرت نہیں پائی، اگر کبھی ایسا ہو بھی گیا تو پھر یا تو اُس کی غربت قصہ پارینہ ہوئی یا پھر اُس کی شاعری ماضی کا حصہ بن گئی۔ کئی لوگ زمین سے اُٹھے اور ہر لحاظ سے بلندیوں پر پہنچ گئے، اُن میں سے کچھ نے اپنے غریب ماضی کو ایک یاد کی حیثیت سے اپنی یادوں سے چمٹائے رکھا۔ یہ یقینی ہے کہ سیاست کی طرح شعروادب بھی غریب کا کام نہیں رہا، غربت اور ناداری صلاحیتوں کو بھُسم کرنے کے لیے کافی ہیں۔