ماحولیاتی مسائل، حل اور عوامی رویے
ملیحہ سید
پاکستان کو گذشتہ کئی سالوں سے مختلف ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں پانی کی کمی، جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں۔ ضرورت سے زیادہ زمین سے پانی نکالنے، غیر موثر زرعی طریقوں اور پانی ذخیرہ کرنے کی محدود سہولیات کی وجہ سے پانی کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جنگلات کی کٹائی مٹی کے کٹاؤ اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان میں معاون ہے۔ فضائی آلودگی، بنیادی طور پر شہری علاقوں میں، صحت عامہ اور ماحول کو متاثر کرتی ہے۔مزید برآں،پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سامنا، بارش کے بدلتے ہوئے شیڈول اور انتہائی موسمی واقعات، زراعت اور آبی وسائل کو متاثر کرنے کے لیے خطرے سے دوچار ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار پالیسیوں، تحفظ کے لیے قومی اور علاقائی سطح پر بھرپور کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔
پاکستان ماحولیات کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اور عالمی گرین ہاؤس گیس (GHG) کے اخراج میں سب سے کم حصہ دار (0.9%) ہے۔ ملک کے سیلاب 2022 کو عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی ایک روشن مثال کے طور پر دیکھا گیا ہے جس کی تلافی اور موسمیاتی انصاف کی ضرورت ہے جیسا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس کی شاید اہم ترین وجہ حکمرانوں کا لاابالی پن ہے، وہ اس معاملے پر سنجیدہ رویوں کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ بیرونی امداد کہیں اور استعمال میں لائی جاتی ہے اس لیے عدم اعتماد کی فضا گہری سے گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔پاکستان نے شرم الشیخ میں کانفرنس آف پارٹیز (COP) 27 سے پہلے، G-77چین گروپ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حمایت سے، موسمیاتی انصاف کے لیے اپنے کیس کی پرزور وکالت کی اور اس کی تشکیل سے خوش کا اظہار بھی کیا۔اگرچہ
Loss and Damage Funds،یو این ایف سی سی سی سی او پیز میں Loss and Damage Funds کے قیام کا معاملہ طویل عرصے سے زیر بحث تھا، لیکن پاکستان کے دباؤ نے کام کیا، اور آخر کار، COP27 نے Loss and Damage Funds قائم کیا۔ اس فنڈ کے قواعد و ضوابط ابھی بننا باقی ہیں۔اگرچہ یہ اب بھی ایک بڑا قدم ہے، لیکن COP28 سے پہلے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔موسمیاتی انصاف کے لیے ایک میکانزم کے ہدف تک پہنچنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں منعقد کیا جائے گا جو اس کے سٹیک ہولڈرز رہے ہیں۔موسمیاتی انصاف، موسمیاتی مالیات، نقصان اور نقصان، اور ادارہ جاتی صلاحیت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا بہت زیادہ ضروری ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جو، اب تبدیلی سے اگلے درجے تک پہنچ گئی ہے۔اس کے لیے اسٹیک ہولڈر کی مصروفیت کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے اور صلاحیتوں کی نشوونما کے بہترین تربیتی پروگراموں کو شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کی حمایت مختلف حوالوں سے ہوتی ہے جس سے ان چار موضوعات کو سمجھنے میں اضافہ ہوتا ہے جیسے ادارہ جاتی صلاحیت، DRR پالیسی پر عمل درآمد، موسمیاتی مالیات تک رسائی، اور نقصانات کے آپریشنلائزیشن پر زور دینا اور پاکستان میں موسمیاتی کارروائی کے لیے نقصانات کے ازالے کا فنڈ مہیا کرنا۔
ایس ڈی پی آئی نے ان بنیادی اور ثانوی ذرائع پر مبنی چار پالیسی پوزیشن پیپرز تیار کیے ہیں تاکہ COP 28 سے پہلے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بحث پیدا کی جا سکے۔ یہ ایک بہترین کاوش تھی جس میں انہوں نے ریاستی اسٹیک ہولڈرز، متاثرین، قانونی مشاورت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی ساتھ شامل رکھا۔ایس ڈی پی آئی کی میڈیا ٹاک نے جہاں میرے بہت سارے نظریات کو تقویت دی وہیں کافی مخالطوں کو دور بھی کر دیا۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انسان اپنا دشمن خود ہے، فطری زندگی سے دوری اور آسائشوں کے لالچ نے اسے گونا گوں مسائل کا شکار کر دیا ہے جس میں اہم ترین اس کی ماحول دشمن پالیساں اور رویے ہیں۔گذشتہ دنوں ایس ڈی پی آئی کی میڈیا ٹاک میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر شفقت اور رمضان بھٹی نے جس طرح قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احاطہ کیا وہیں انہوں نے انسانوں کے رویوں اور لالچ پر بھی کھل کر بات کی۔ ماحول اور سماجی رویے اور اخلاقی اقدار میرا موضوع ہیں تو میرے لیے یہ میڈیا ٹاک ان پہلوؤں کی نشاندھی میں مددگار ثابت ہوئی کہ کیونکر انسان کا لالچ اسے فطرت کا مجرم بنا رہا ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں میں خود انہی غلطیوں کی مرتکب ہو کر غیر محسوس طور پر ماحولیاتی عدم توازن کے عناصر میں شامل ہوں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارے پاس بیشک پیسے کم ہوں لیکن ہم چیزیں زیادہ خریدنا چاہتے ہیں۔ سماجی ترقی اور طبقاتی نظام میں پرچون، کریانہ کی دکان کی جگہ سوپر سٹور اور شاپنگ سینٹر نے لی تو ہمارا رویہ غیر پختہ ہو گیا؟ کیسے ہوا خوبصورت اشیا کو دیکھ کر اور خاص پر جب مارکیٹ میں سیل کا سیزن ہو تو ہمارا لالچ بڑھ جاتا ہے کہ چلیں یہ بھی لے لیں استعمال ہو جائے گا۔ ابھی اس قیمت پر ہے آگے مہنگا ہو جائے گا۔
جی ہم میں سے اکثریت غیر ضروری شاپنگ کرتی ہے جس چیز کی ضرورت نہیں بھی ہوتی وہ لے لیتے ہیں۔ جس میں ایک تو اس میں پیسے کا ضیاع ہوتا ہے، دوسرے جب ایک چیز پروڈیوس ہو رہی ہے تو اس پروڈکشن کے لیے کارخانے میں جو آئل یا کوئلہ جلایا گیا یا جو بھی فاسل فیول استعمال ہو، وہ سب ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس سرگرمی میں صرف پیسے ہی کا عمل دخل نہیں ہوا بلکہ جو کاربن اور دیگر زہریلے مادے فضا میں شامل ہوئے وہ ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ ان زہریلے مادوں نے ہمارے ماحول کو حدت فراہم کی۔ ان موضوعات پر پرنٹ اور سٹریم میڈیا میں کوئی بات نہیں کرتا اور انسانی لالچ کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔جس پر بات کرنی ضروری ہے۔ اسے ہم Behaviour Change Cumnication کہتے ہیں۔ جو ہم سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے کر سکتے ہیں اور ہمیں آج نہیں تو کل کرنی ہو گی، اپنے آج اور کل کے لیے ورنہ ہمیں کوئی معاف نہیں کرے گا۔
اگرچہ پاکستان میں متوقع اور پیشگی اطلاعات کے باوجود اس سال بارشیں کم ہوئی ہیں اور ہمیں گذشتہ سالوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن مجموعی طور پر اگر آپ دیکھیں تو ہم ہر وقت رسک پر ہیں۔ یہ رسک کس قسم کے ہیں، ہمیں اس پر غور کرنا ہے۔ اس حوالے سے ایک جائزہ لیں تو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں لاہور شہر میں موسم گرم تھا مگر دوسرا ہفتہ شروع ہوتے ہی بارش کا ایک غیر متوقع سپل آیا اور لاہور میں موسم سرد ہو گیا، اے سی یہاں تک کہ پنکھے بھی بند ہو گئے۔لوگ گرما کے ہلکے پھلکے ملبوسات سے سے قدرے موٹے اسٹف کی طرف چلے گئے۔ بے شک رواں سال سیلاب کی بدترین صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر اب درجہ حرارت میں ردوبدل جاری ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا تھا کہ اکتوبر کے ان دنوں میں ٹمپریچر اتنا ہو گا؟ صرف 10 یا پندرہ سال پیچھے چلے جائیں تو یہ جو سارا کلائمٹ چینج کا سلسلہ ہے، یہ جو درجہ حرارت کہیں کم تو کہیں بہت زیادہ ہوا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر اپ پچھلی ایک صدی کو دیکھ لیں، یا جب آپ خود 20 سال کے تھے اور اس 20 سال کو بھی چھوڑ دیں پچھلے 10 سال کو پھر پانچ سال کو دیکھ لیں تو احساس ہو گا کہ کتنا فرق پڑ چکا ہے، جس پر آپ خود حیران رہ جائیں گے کیونکہ آپ کہیں نہ کہیں اس کے حصے دار ہیں تو وہیں آپ اس کے متاثرین میں بھی شامل ہیں۔