آج کے کالمعامر اسماعیل

سیاستدانوں کے لیے مشکلات!

عامر اسماعیل
پاکستانیوں کی اکثریت شخصیت پرستی کا شکار ہے، پاکستانی ووٹرز کی اکثریت،کسی نظرئیے کی بجائے سیاسی قائدین کے سحر میں ڈوبی نظر آتی ہے، کیونکہ ان سیاسی قائدین کے پاس کوئی نظریہ ہی نہیں اسی لیے پاکستانی عوام کی اس کیفیت کے ذمہ دار بھی یہی سیاسی قائدین ہیں جو اپنی سیاست میں اس قدر غرق ہیں کہ انہیں نہ پاکستان کی فکر ہے اور نہ ہی اس قوم کی کوئی پرواہ ہے۔ سیاسی نظریہ کے فقدان کے بعد فقط ایک نظریہ باقی بچتا ہے اور یہ نظریہ صرف اور صرف اقتدار کی خواہش ہے کہ جیسے بھی ہو،جن شرائط پر بھی ہو بس اقتدار ہو، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
تحریک پاکستان کے بعد اگر کوئی نظریاتی سیاست ہوئی ہے تو وہ صرف بھٹو نے کی یا اس کے بعد عمران خان نے کسی منشور کے تحت اپنی سیاست کی ہے۔ بھٹو کی سیاست سوشلزم کے گرد گھومتی رہی اور ان کا مشہور زمانہ نعرہ روٹی،کپڑا اور مکان نے ایک عرصہ تک پاکستانی عوام کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا،تاہم بھٹو کا سیاسی افق پر نمودار ہونے میں کوئی بہت زیادہ محنت سامنے نظر نہیں آتی کہ اولاً بھٹو، جنرل ایوب کی کابینہ میں شامل رہے اور معاہدہ تاشقند کی حقیقت سناتے سناتے،اس جذباتی قوم کو اپنا گرویدہ کر گئے۔ 1965کی جنگ کے بعد،بھٹو کے پاس یہ تیر بہدف نسخہ تھا کہ اس قوم کو بھارت فوبیا جذبات سے اپنا گرویدہ بنایا جا سکتاہے،جو بھٹو نے بخوبی کیالیکن اس کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھٹو نے بہرطور اس قوم کو ایک نظریہ دیا تھا،جس کے گرد پاکستانی سیاست قریباً چار دہائیوں تک گھومتی رہی ہے۔بھٹو نے بیشتر وقت میں پاکستان کے باقی ماندہ یعنی مغربی پاکستان کی سیاست کی اور ان کی مقبولیت کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکا،پاکستانیوں نے بھٹو کو اپنا مسیحا گردانا اور اپنی عوامی طاقت بھٹو کے پلڑے میں ڈالی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ بھٹو اپنی مشتعل مزاجی کہیں یا جارحانہ انداز،اپنی اور مقتدرہ کی حیثیت کا صحیح موازنہ اور اندازہ کرنے میں غلطی کر گئے۔ بھٹو کی یہ غلطی قطعی معمولی نہیں تھی بلکہ اس کی قیمت بھٹو کو اپنے عدالتی قتل سے ادا کرنی پڑی،باقی سب تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح بتدریج بھٹو کی پیپلز پارٹی کو کھڈے لائن لگانے میں کیا کیا پاپڑ بیلے گئے لیکن وقت کا جابر ترین آمر بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور نہ ہی اس کے رفقاء،جنہوں نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سرکاری طور پر ایک لیڈر کو بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔یہاں مشرقی پاکستان کے عوامی قائد شیخ مجیب الرحمن کا ذکر بھی مناسب ہے بلکہ تاریخی بددیانتی ہو گی اگر شیخ مجیب کا ذکریہاں نہ کیا جائے،مشرقی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کی صورت سامنے آئے مگر اگرتلہ سازش جیسی معاندانہ کارروائیوں کے باوجود ان کی مقبولیت کو فرق نہیں پڑا۔
تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب بھٹو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور بے نظیر،بھٹو کا پرچم اٹھائے، پیپلز پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کے لیے پاکستانی عوام نکلی تھی تو اس کے مد مقابل ایک آمر تھا جبکہ بے نظیر نہتی اس آمر کا مردانہ وار مقابلہ کر رہی تھی۔ بدقسمتی یہ رہی کہ بے نظیر بہت عرصہ تک اس آمریت کا مقابلہ نہ کرسکی او ر اسے جبراً جلاوطن کر دیا گیا،یہاں نصرت بھٹو کی سیاسی بصیرت و جدوجہد کا ذکر اپنی جگہ اہم ترین ہے کہ یہ دونوں خواتین جمہوریت کے لیے مردانہ وار سڑکوں پر نکلیں۔تب پیپلز پارٹی کے صف اول کے قائدین کا رویہ کیا رہا،یہ اب تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح وہ جنرل ضیا کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے اور کس طرح ایک عوامی لیڈر کو ہٹانے میں گھناؤنا کردار ادا کرتے رہے لیکن جو عزت اللہ رب العزت نے کسی کے نصیب میں لکھ دی ہو،ایسے جی حضوریوں کی سازشوں سے ختم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ایسی عزت ایسے سازشی کرداروں کا نصیب ہوتی ہے اور وہ بالآخر اپنے ہی نصیب حاصل کرپاتے ہیں، جو بالعموم گمنامی و ذلت ہی ہوتی ہے۔پاکستان میں غیر جمہوری طاقت کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ عوامی حمایت یافتہ قائد کے مد مقابل ایک ایسی طاقت کو سامنے لایا جائے جو ان کے اشارہ ابرو کی محتاج رہے تا کہ کسی نہ کسی طرح بلاواسطہ طریقے سے وہ پاکستانی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔ اس مقصد کے لیے ہی 80کی دہائی میں نواز شریف کو سیاست میں متعارف کروایا گیااور بعد ازاں نواز شریف کی سیاست کا محور و مرکز اینٹی بھٹو ازم پر مرکوز رکھا گیا اور اس مقصد کی خاطر قومی سوچ کو تقسیم کرنے کے لیے ایک طرف ایم کیو ایم جیسی تنظیم بنائی گئی تو دوسری طرف جاگ پنجابی جاگ کانعرہ ایجاد کرکے نواز شریف کو تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ قوم کو لسانیت میں دھکیل دیا گیا۔ لسانیت کے اس عفریت نے آج پاکستان کو واضح طور پر منقسم کر رکھا ہے اور چھوٹے صوبوں کو ہمیشہ پنجاب سے شکایت رہتی ہے گو کہ پنجاب بیشتر معاملات میں ایثار کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن چھوٹے صوبوں کے سیاسی قائدین یا قبائلی سردار ہمیشہ وفاق اور پنجاب سے شاکی نظر آتے ہیں کہ ان صوبوں کو پورے حقوق نہیں ملتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وفاق سے ملنے والے کثیر فنڈز ان عمائدین کی ذاتی تجوریوں میں منتقل ہوتے ہیں لیکن یہ عمائدین ہمیشہ وفاق کی ناانصافی کارونا روتے صرف اس لیے نظر آتے ہیں تاکہ اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں اور دوسری طرف وفاق کو مستقلاً دباو? کا شکار رکھیں۔
نواز شریف،گو کہ غیر جمہوری طاقتوں کے سہارے سیاست میں نمودار ہوئے لیکن آج اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ پاکستانی سیاست کے اہم کردار ہیں اور ان کے بغیر پاکستانی سیاست کا کھیل نا مکمل تصور ہوتا ہے کہ ان کی عوام میں حمایت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سیاسی بزرج مہر جو حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد یہ گمان رکھتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست دفن ہو گئی،بہرکیف دیوانوں کی دنیا میں رہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں محرکات قطعی مختلف ہیں،جن کا اظہار ہو چکا ہے۔یہاں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف دیگر سیاستدانوں کی طرح اختیار کلی کے خواہشمند تو ہیں لیکن عملاً یہ خواہش صرف اس وقت سامنے آتی ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوں اور بعینہ ویسے ہی جیسے دیگر سیاستدان اقتدار کی خاطر پس پردہ انہی طاقتوں کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں۔
مشرف دور میں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے جو کڑا وقت دیکھااور جس سختی کا سامنا کیا،اس کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ کہنا اور سمجھناشروع کردیا کہ مسلم لیگ نون ختم ہو گئی،لیکن بعد ازاں انتخابات نے اس گمان کو باطل ثابت کیا اور آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ نون کی خاطر خواہ کارکردگی متوقع ہے۔کسی بھی سیاستدان کی نااہلی،کسی غیر سیاسی قوت کے کہنے پر ممکن نہیں اور نہ ہی کسی قانونی موشگافی سے ممکن ہے،جمہوری اطوار میں سیاستدانوں کی نااہلی فقط عوامی حمایت کی عدم موجودگی میں ممکن ہے،بصورت دیگر نہ تو سیاستدان اور نہ ہی سیاسی جماعت نااہل ہو سکتی ہے۔اس وقت بھی پاکستانی سیاسی افق پر ایک اور تن آور سیاسی جماعت کے خلاف قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر نا اہل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن کیا حکومت وقت اس میں کامیاب ہو سکے گی یا اس آڑ میں نواز شریف کی نااہلی ختم کروانے کی کوشش کی جائے گی؟ماضی کی تاریخ تو اس کی شدت کے ساتھ نفی کرتی ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ سیاسی میدان میں ہونے والی عدم برداشت نے معاملات انتہائی کشیدہ کر رکھے ہیں اور سیاسی قائدین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں بظاہر قصور عمران خان کا نظر آتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے قطعی تیار نہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے انہیں بلیک میل کیا جا سکتا ہے یا اس صورت میں وہ اپنے موقف کی نفی کریں گے۔بہرصورت معاملہ جو بھی ہے، حکومت و قت عمران خان یا تحریک انصاف کو نااہل کروانے کے چکر میں مستقبل میں سیاستدانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی لیکن پھر وہی بات کہ ایسی حرکتوں سے نہ تو کوئی سیاستدان اور نہ ہی سیاسی جماعت نااہل ہوگی البتہ ایسی کارروائیوں سے سیاستدانوں کی سیاست سے لاعلمی و نااہلیت ضرور واضح ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button