غیراعلانیہ انتخابی سرگرمیوں کا آغاز

مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے،پارٹی رہنماؤں کا اجلاسوں کی صدارت کررہے ہیں تو دوسری سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل، بلوچستان عوامی پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے رہنماؤں نے بھی اُن سے جاتی امرا میں ملاقات کی، ملاقاتوں میں سیاسی اور معاشی صورت حال سمیت آنے والے عام انتخابات کے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوے روز میں عام انتخابات کے کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دو نومبر تک ملتوی کردی ہے۔ بلاشبہ میاں نوازشریف کی وطن واپسی کو قومی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے مثبت اور نیک شگون قرار دے رہے ہیں تو اُن کے سیاسی مخالفین بال کی کھال بھی اُتار رہے ہیں۔ مگر اِس امر سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات اور سیاست قائدین کی سرکردگی میں ہی ہوتی ہے، ماضی میں بڑے سیاسی حریف ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم میں مدمقابل ہوتے تھے، پھر شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف قریباً ایک دہائی تک مدمقابل رہے لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سیاسی میدان میں میاں نوازشریف کے مدمقابل عمران خان آگئے اور 2018کے انتخابات میں عمران خان کو وزارت اعظمیٰ کا قلم دان سنبھالنے کا موقعہ ملا۔ اب عمران خان سائفر، توشہ خانہ اور اپنے خلاف دائر دو سو کے لگ بھگ مقدمات کی وجہ سے جیل میں ہیں اور اسی دوران میاں نوازشریف وطن واپس آچکے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو عمران خان نے پہلے ہی اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کردی تھیں تاکہ وفاق سندھ اور بلوچستان میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت پر دباؤ بڑھایاجاسکے کہ وہ فوری عام انتخابات کی طرف آئیں مگر وہ اِس میں ناکام رہے۔ اتحادی حکومت سولہ ماہ یعنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار سے الگ ہوگئی اور اب ملک بھر میں نگران سیٹ اپ چل رہا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور الیکشن کمیشن کے درمیان انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر قریباً ڈیڑھ سال سے خط و کتابت ہوتی رہی ہے اور کئی درخواست گزاروں نے بھی آئینی مدت کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہوا ہے جس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے دو نومبر تک ملتوی کردی ہے جبکہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جنوری میں عام انتخابات کامختلف مواقعے پر عندیہ دے چکے ہیں، اِس لحاظ سے قریباً تین ماہ عام انتخابات میں باقی معلوم ہوتے ہیں اور ملکی سیاسی جماعتیں خواہ وہ قومی سطح کی ہوں یا صوبائی سبھی رابطہ عوام مہم شروع کرچکی ہیں یقیناً میاں نوازشریف بھی آنے والے چند دنوں میں ملک بھر میں جلسوں سے خطاب کرتے نظرآئیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی مینار پاکستان کے مقام پر اگلے ماہ جلسہ عام کا اعلان کرچکی اور پاور شو کے لیے بھرپور تیاریاں کررہی ہے، لہٰذا اِس ساری گذارش کا واحد مقصد یہ کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یکساں مواقعے فراہم ہونے چاہئیں تاکہ اِن انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی منتخب حکومت اور انتخابی عمل کی شفافیت پر اُنگلیاں نہ اٹھائی جائیں اور ہمیشہ کی طرح انتخابات کو متنازعہ جبکہ منتخب حکومت کو”سلیکٹڈ“ نہ کہا جائے، اگر تمام سیاسی جماعتوں کو رابطہ عوام مہم یعنی ووٹرز تک رسائی برابری کی سطح پر دی جاتی ہے تو بلاشبہ ووٹرز ہی فیصلہ کریں گے کہ اقتدار کس جماعت کو ملناچاہیے۔ پھر یہ کہ سب کو مساوی مواقعے دیئے جائیں۔ دوسری گذارش یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ کی طرح انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے سے باز رہیں اور عوام جس جماعت کی جھولی میں مینڈیٹ ڈالیں، اِس کے مینڈیٹ کا خیال کریں، ویسے بھی پی ڈی ایم کی حکومت انتخابی اصلاحات کرچکی ہے، لہٰذا یکساں مواقعے کے ساتھ سب کو انتخابی میدان میں اُترنے کی آزادی ہونی چاہیے اور سبھی جماعتیں بلند و بانگ دعوؤں اور متنازعہ امور کو چھیڑنے کی بجائے اپنے منشور اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹرزسے مخاطب ہوں، ہمارا موقف ہے کہ اب طرز سیاست کو شائستہ اور انتخابی منشور کے مطابق بنایا جائے، اپنی کارکردگی کو ووٹرز کے سامنے رکھا جائے نہ کہ انتخابی جلسے اور پریس کانفرنس میں فرق کرنا مشکل ہوجائے۔ کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا اور اِس کا تسلسل برقرار رہے گا تبھی داخلی اور مسائل حل کی جانب بڑھیں گے، اور اگر یہی روایتی سیاسی مخاصمت جاری رہی تو اگلے پانچ سال بھی ماضی اور حال سے مختلف نہ ہوں گے۔ اِس ضمن میں ملک کے تجربہ کار سیاست دانوں بالخصوص میاں نوازشریف پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ تین بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں، سیاسی، معاشی غرضیکہ ہر شعبے پر آپ کی گہری نظر ہے اور اپنی زیرک نظری اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کی وجہ سے دوسروں کو بخوبی قائل کرتے رہے ہیں، لہٰذا میاں نوازشریف اور دوسرے تجربہ کار سیاست دان ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سرجوڑیں اور ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں جس کے نتیجے میں ملک کے داخلی حالات بہتری کی طرف بڑھیں اور عوام بھی سیاست سے بے رُخی کو ترک کردیں۔