وحشیوں کے پاؤں میں زنجیر ہونی چاہیے

ندیم اختر ندیم
یہ روتے ہوئے ایک بچے کی فریاد تھی جس میں وہ مسلمانوں کو پکار کر کہہ رہا ہے، اے ڈیڑھ ارب مسلمانو! تم کہاں ہو تم نے ہمیں ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جنہوں نے ہمیں ذبح کیا، ہمیں قتل کیا ہے اور ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم اپنے گھر چھوڑرہے ہیں ہماری۔ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں لوٹی لی گئی ہیں۔ ہم چیختے رہے، کیا تم نے ہماری آواز سنی؟، ہم یتیم ہوگئے، ہمارا قصور کیا تھا کہ ہم اپنا حق مانگ رہے تھے، اس ظلم کی اصل بنیاد اسرائیل ہے، جہاں سے ہم پر ظلم کیا جارہا ہے، اس فساد اور سازشوں کے پیچھے اسرائیل،امریکہ اور اس کے حواری ہیں ہم اللہ سے رجوع کرتے ہیں وہی ہمارا مددگار ہے، وہی ہمارے ساتھ ہے، وہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔
قارئین کرام!یہ کوئی چھ سات سالہ بچہ ہے، جو اشکبار آنکھوں سے فریاد کررہا تھا، جس کی آنکھوں سے بہتے آنسو ہمارے دلوں پرچھید کررہے تھے، آج ایک یہ بچہ ہی نہیں کتنے ہی بچے اور بچیاں رورو کر عالم اسلام کا ضمیر جھنجھوڑ رہے ہیں لیکن عالم اسلام کا ضمیر شاید ابدی نیند سو چکا ہے، آج فلسطین کی ہر گلی میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے جس پر دنیا کی کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا نہ ہی دنیا کا کوئی قانون حرکت میں آرہا ہے۔ جب بھی آیا قدرت کا قانون ہی حرکت میں آئے گا، ایک اور دل دہلا دینے والا منظر کہ باپ اپنے کم سن بچے کی نعش لئے بیٹھا ہے بچے کو سفر آخرت پر روانہ کرنے سے پہلے ان کی پالتوبلی بھی باپ کی گود میں جا بیٹھتی ہے وہ بھی اس معصوم شہید پر اتنی ہی افسردہ ہے یعنی انسان تو رہے ایک طرف فلسطین میں شہید ہونے والے معصوموں پر جانور بھی گریہ کناں ہیں اور اسلامی حکمران اپنے محلات میں سامان تعیش کئے ہوئے ہیں اور یہ عیش ہی ان کی تباہی کا باعث بننے والی ہے ہمارے مسلم حکمرانوں نے اور کیا بھی کیا ہے، عالیشان محلات میں محفل طرب کا اہتمام کیا ہے کاش یہ حکمران محلات کی جگہ اپنا دفاع مضبوط کرتے محفل طرب کی بجائے سامان حرب بنایا ہوتا تو آج حالات اور ہوتے ہمارے عرب بھائی تو رہے عیش میں اور کافروں نے انہیں بھی انہیں عیش میں رکھا تاکہ یہ ہمیشہ کے ناکارہ بن کررہ جائیں کافروں نے عربوں پر بڑی محنت کرکے انہیں جذبہ ایمانی سے خالی کیا ہے۔
جب عراق سعودی عرب پر چڑھ دوڑا تھا تو امریکی فوجی عراق کے خلاف سعودیہ کے محاذ پر تھے عراق سے جب بھی کوئی میزائل داغا جاتا تو سعودی شہری ایک دوسرے کو کہتے کہ”فکر نہ کیجئے امریکی آگے ہیں“ جب کسی قوم کی حالت ایسی ہوجائے تو پھر کسی سے شکوہ ہی کیا؟یہ درست ہے کہ بیت اللہ اور مدینہ منورہ کو قیامت تک کبھی کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا لیکن آج دنیا کا مسلمان تو زیرعتاب ہے جس کے لیے عرب ممالک کو عملی اقدامات کی حاجت تھی فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے جو قہر برپا ہے آج دنیا اسے دیکھ رہی ہے لہو میں نہایا ہوا،ایک فلسطینی بچہ جو اسرائیلیوں کی جارحیت سے جاں بلب ہے دوسرا بچہ جو خود بہت زخمی وہ اسے کلمہ شہادت پڑھا رہا ہے اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ اسرائیل نے ہسپتال میں میزائل برسا دئیے ہسپتال تو بیمار اور زخمی لوگ علاج کے لیے جاتے ہیں، کوئی بڑا دشمن یا ظالم ترین شخص بھی کسی زخمی پر وار نہیں کرتا لیکن اسرائیلیوں نے ظلم کی ہر حد عبور کر لی ہے ابھی دنیا اسرائیل کے ہسپتال پر حملے کی مذمتوں میں تھی کہ اس نے ایک اور ہسپتال کو ملیا میٹ کردیا،دنیا کو زعم تھا کہ اسرائیل شاید عالمی قوانین کی پاسداری کرے گا یا جنگی اصولوں کو خاطر میں رکھے گا لیکن وحشی کسی اصول ضابطے کو نہیں مانتے اور وحشیوں کا علاج تو یہی ہے کہ ”وحشیوں کے پاؤں میں زنجیر ہونی چاہیے“
لیکن ان وحشیوں کے پاؤں میں زنجیر ڈالے گا کون؟کہ اس وقت دنیا کا کفر اسرائیل کے لیے متحد ہوچکا ہے اور عالم اسلام بکھرا پڑا ہے بکھرنا بھی ایسا کہ تنکوں جیسا اور اس کوشش میں امریکی سازشوں کا کامیاب حصہ ہے،امریکہ عرب ممالک میں اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ ہر عرب ملک میں امریکی مداخلت راسخ ہو چکی ہے، امریکہ ایک ایک کرکے مسلم ممالک پر وار کرکے دیکھ چکا ہے اسے پختہ یقین ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کو زخم دیجئے کوئی دوسرا مسلم حکمران روکنے کی جرأت نہیں کرسکتا اسرائیل کے معاملے میں امریکہ کھل کر آشکار ہوچکا ہے، جس کے بعد اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ ہم مسلمان اپنی راہوں کا تعین نہ کرلیں ہم نے آج تک جدید ٹیکنالوجی اور سائنس میں ترقی کو ترجیح نہیں دی اور دنیا کا کافر مسلمانوں سے رہنمائی پا کر آسمان تک پہنچ چکا ہے یہ امریکی ہمیشہ سے اتنے طاقتور نہیں تھے ان کے حالات بھی کبھی خستہ تھے، انہوں نے بھی ترقی کے مراحل آہستہ آہستہ طے کئے ہیں،یہ سارا یورپ کیا تھا کچھ بھی تو نہیں جو آج اسرائیل کے ساتھ یک زبان ہوا بیٹھا ہے، یہ حملے فلسطین پر نہیں ہورہے بلکہ ان کا دائرہ وسیع ہو کر(خدانخواستہ) دوسرے اسلامی ممالک تک پھیل جائے گا، نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا جب وصال ہوا تو آپ ﷺ کے ہجرہ مبارک کی دیواروں پر سات سے نو تلواریں لٹک رہی تھیں حالانکہ(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے آپ ﷺکی زرہ بکتر رہن رکھ کر چراغ جلانے کے لیے تیل خریدا لیکن دیواریں پھر تلواروں سے آراستہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی چمکتی ہوئی تلواروں سے چار بر اعظم فتح کئے گئے اور آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ہی علاقے کھورہے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر ہم اپنا کیا کیا کھوئیں گے اور کہاں تک کھوئیں گے ہم اور علاقے کیا فتح کریں گے کہ ہم سے اپنا آپ بچانا مشکل ہوگیا ہے۔