آج کے کالمایم یوسف بھٹی

میوزیکل چیئرز کا کھیل

یوسف علی

دنیا بھر کے ملکوں میں انصاف کو برتری حاصل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں انصاف ہوتا ہے وہی قومیں اور ملک و معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انصاف جبر اور ظلم و زیادتی کا ایک مخالفانہ نظام معاشرت ہے۔ اگر کسی معاشرے کی عوام الناس کو انصاف مل رہا ہو تو وہاں کمزور بھی اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے جتنا کہ ایک طاقتور، طاقتور ہوتا ہے کیونکہ عدالتی انصاف پر مبنی نظام صرف اسی صورت میں قائم ہوتا ہے جب انصاف پر مبنی عدالتی نظام طاقتور کی ظلم و زیادتی کا سر کچلنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ انصاف کے اسی فطری مقصود کے پیش نظر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں“۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف کے قیام کے لیے افلاطونی قسم کی قانونی پیچیدگیاں ہیں کہ جس میں قانون واقعی ایک مکڑی کا جالا نظر آتا ہے جس کو بڑے جانور تو توڑ تاڑ کر نکل جاتے ہیں مگر چھوٹے اور کمزور کیڑے مکوڑے اس میں پھنس جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے ملک میں اس نوع کی ظلم و زیادتی اور ”چوری“ ایک مقولے کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ یہاں ”مرغی چور“ تو پھنس جاتا ہے مگر ”پورا ملک ہڑپ کرنے والا“ چھوٹ جاتا ہے۔
ایک بار کسی ریٹائرڈ جج نے کہا تھا کہ”اگر میرے سامنے قتل بھی ہو جائے تو میں مجرم کو سزا نہیں دے سکتا ہوں“۔ اس کی بڑی وجہ انہوں نے یہ بتائی تھی کہ پاکستان میں قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں اتنا زیادہ سقم پایا جاتا ہے کہ یہاں مکمل انصاف قائم ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو ہر سطح اور پیمانے کی ”کرپشن“ ہے جس سے زور دار طریقے سے پہلی بار عمران خان نے پردہ اٹھایا تھا اور عوام کو اتنے بڑے پیمانے پر”سیاسی شعور“ بھی دیا تھا مگر پہلے جس طرح”انصاف“اور”جمہوریت“ کا گلہ گھونٹ کر میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تھا اس سے بڑی ”ناانصافی“ اور”سیاسی کرپشن“ کر کے خود عمران خان کو لایا گیا تھا جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا تھا کہ بعد میں خود عمران خان کو کرسی سے اتارنے کے لیے اور”پی ڈیم ایم حکومت“ کو لانے کے لیے”مقتدرہ“ کو جمہوری اصولوں اور انصاف کا”قتل“ کرنا پڑا تھا۔
بدقسمتی سے سیاست کے علاوہ ہمارے ملک کے ہر ادارے اور شعبے میں ”کرپٹ پریکٹسز“ اس قدر زیادہ ہیں کہ آپ اپنی آنکھوں دیکھے جرم کو بھی کورٹ آف لاء میں ثابت نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ کیسا قانون ہے اور یہ کس قسم کا انصاف ہے کہ آپ 100% جانتے ہیں کہ ایک شخص مجرم ہے اور دوسرا آدمی بے گناہ ہے مگر بعض اوقات ان قانونی پیچیدگیوں کے ہوتے ہوئے آپ نہ بے گناہ کوبے گناہ اور نہ مجرم کو مجرم ثابت کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال چار سال بعد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی ہے۔ میاں محمد نواز شریف صاحب ایک عدالتی حکم اور اپنے بھائی شہباز شریف صاحب کی ضمانت پر لندن ”دوائی“ لینے گئے تھے، ان کی بیماری ٹھیک ہو گئی، وہ برطانیہ میں صحت مند زندگی گزارتے رہے اور وہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات وغیرہ بھی آتے جاتے رہے مگر وہ پاکستان اس وقت تک نہیں آئے، حتی کہ اس وقت بھی پاکستان نہیں آئے جب ان کے بھائی شہباز شریف وزیراعظم تھے، مگر وہ اسی صورت میں 21اکتوبر کو پاکستان پلٹے ہیں جب ان کی ڈیل ہو گئی ہے۔ کیا معاملہ کر کے بھی کوئی انصاف قائم کیا جا سکتا ہے؟ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں محاورتاً مشہور ہے کہ لوگ انصاف لینے کے لیے وکیل کرنے کی بجائے عدالت کر لیتے ہیں۔ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اتنے عرصے بعد نواز شریف صاحب کو انصاف کیسے ملا ہے؟ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ، دیر سے انصاف ملنا انصاف دینے سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ دنیا اپنے معاشروں میں انصاف قائم کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ آج ہمیں جہاں بھی ترقی اور خوشحالی نظر آتی ہے اس کے پیچھے وہاں کا نظام انصاف ہے۔ عمران خان صاحب چار سال تک نواز شریف صاحب کو چور چور کہتے رہے آج وہ خودچوری،سائفر اور 9مئی کے واقعات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ممکن ہے نواز شریف کی طرح کل عمران خان کی بھی ڈیل ہو جائے اور وہ بھی رہا ہو جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کل نواز شریف چور تھے مگر آج سادھ ہیں یا بالکل ایسے ہی جس طرح اسحاق ڈار لندن میں تھے تو وہ مجرم تھے اور عدلیہ کو مطلوب تھے مگر جب وہ پاکستان آئے تو وزیر خزانہ لگ گئے، اور جونہی پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی وہ بحفاظت لندن واپس چلے گئے۔۔۔!!!
حیرت ہے کہ اگر میاں نواز شریف صاحب ٹھیک تھے تو انہیں اتارا کیوں گیا تھا جیسا کہ وہ خود کہتے تھے کہ، ”مجھے کیوں نکالا“ اور وہ غلط تھے اور اب بھی ”غلط“ ہیں (جیسا کہ مردہ پی ٹی آئی کے ہمدرد سوچتے ہیں) تو اسے 4سال کا یہ ڈرامہ رچانے کے بعد دوبارہ ”اقتدار“ دینے کی کیوں تیاریاں کی جا رہی ہیں؟ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ اور قاضی اعظم کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ محاورہ ہے کہ”میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“ آپکو یاد ہو گا کہ میاں نواز شریف گرفتاری کے خوف کی وجہ سے اپنی والدہ اور بیوی کے جنازے پر بھی پاکستان تشریف نہیں لائے تھے۔ آج وہ اس خوف کو عوام کے لیے قربانی کا نام دے رہے ہیں اور اسے عوام کی خدمت کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ انصاف کا یہ قتل کیوں اور کہاں ہوا یا چور چور اورمجھے کیوں نکالا کے بیانیئے میں عمران خان سچے ہیں یا نواز شریف سچے ہیں؟ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کسی ایک بھی وزیراعظم نے اپنی جمہوری مدت پوری نہیں کی اور نہ ہی کوئی آئندہ کر سکے گا جب تک انصاف کے بول بالا کے لیے ایسے بیانیوں کی سیاست کو دفن نہیں کیا جاتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم شاہراہ جمہوریت پر اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر چل رہے ہیں، ہم تھوڑی دور تک چلتے ہیں، کوئی مارشل لاء لگ جاتا ہے یا کسی جمہوری وزیراعظم کو ہٹا دیا جاتا ہے اور ہم جونہی کچھ سفر طے کرتے ہیں ہمیں واپس دوبارہ نیا سفر شروع کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں غالب کے اس شعر کے مصداق عوام بھی کیا کرے کہ:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ ریلیف پہلے کیوں نہیں ملا تھا اور اب اس کا راستہ شہباز شریف نے سیاسی طریقے اور مقتدرہ کے تعاون سے ہموار کیا ہے تو اس کا عدالتی انصاف سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ گرفتاری کے خوف سے میاں صاحب اپنے قریبی رشتوں کی وفات پر بھی نہیں آ پائے تھے مگر اب وہ بیک ڈور سیاست سے اورقانونی پیچیدگی سے فائدہ اٹھا کر واپس آ گئے ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے لیے یہ دن قانون کی بالادستی کا دن ہے اور دوسری کے لیے یہ بلیک ڈے ہے، تو یہ ضمانت بیک وقت سیاست بھی ہے اور انصاف بھی ہے۔ جب سزائیں سیاسی بنیادوں پر دلوائی گئی ہوں یا انصاف بھی سیاسی حیلوں بہانوں سے لیا گیا ہو تو پھر قانون اور انصاف کے تقاضوں کی بات کرنا بے معنی سی بات بن جاتی ہے۔ یہ سیدھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہے۔ ایسا ہے تو پھر جمہوریت اور الیکشن کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا جن عرب ممالک وغیرہ میں جمہوریت کی دیوی نہیں ہے وہاں نظام حکومت خوبصورتی سے نہیں چل رہا ہے یا وہ ممالک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر رہے ہیں؟ ہمیں آدھا سفر طے کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ہم غلط سمت میں جا رہے ہیں۔جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ سمت اقتدار کی کرسیاں بدلنے کا اب تک یہی کھیل رچایا گیا ہے۔ جمہوریت کو مقتدرہ نے ”میوزیکل چیئرز“ کا کھیل بنا دیا ہے یعنی جب چاہو ”کرسی“ کو حکمران کی تشریف کے نیچے سے کھینچ لو۔

جواب دیں

Back to top button