نوجوان فکشن نگار کے نام ایک ”ای میل“

اقبال خورشید
وہ کراچی پر اترنے والی ایک لاحاصل شام تھی، جب مجھے میلوں دُور بیٹھے ایک نوجوان کی غیرمتوقع ای میل موصول ہوئی، جس کے بعد ہمارے مابین برقی ڈاک کا تانتا بندھ گیا اور فکشن سے متعلق میرے ٹوٹے پھوٹے خیالات، ان سوالوں کے وسیلے، جو اس نوجوان کی جانب سے داغے گئے، ایک ترتیب میں ڈھلنے لگے۔
اس خیال کے باعث، بلکہ کہہ لیجیے کہ اُس کی اس غلط فہمی کے باعث کہ میں فکشن سے متعلق کچھ سوجھ بوجھ رکھتا ہوں، اور اس کی راہ نمائی کرسکتا ہوں، اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ اور میں کم از کم اپنی خوش فہمی کے لیے اس غلط فہمی کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔سو اپنی بے ترتیب، اُکتادینے والی مصروفیات سے وقت نکال کر میں نے چھوٹے چھوٹے نوٹس لکھنے شروع کردیے۔
آخر فکشن کیا ہے؟ یہ اس کا پہلا سوال تھا۔
اس سوال نے مجھے واقعی سوچنے پر مجبور کردیا۔ آخرفکشن کیا ہے؟ ایک طلسم، ایک دھوکا؟ ایک گتھی یا ایک گھرنت؟
فکشن کی تعریف، کم از کم میرے نزدیک، کوئی ٹھوس شے نہیں۔ نہیں یہ کوئی چٹان نہیں، بلکہ یہ توسیال ہے، بہتا ہوا دریا۔ اس کے عناصر کا تعین تو ہوسکتا ہے، مگر یہ سیال ہیئت کے مختلف برتنوں میں ڈھل کر نئی نئی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فکشن زندگی کے ہر موضوع کا احاطہ کرسکتا ہے۔ زندگی کی خشک، تلخ حقیقت جب فکشن کے منشور سے گزرتی ہے، جو خود میں موجود رنگ ظاہر کردیتی ہے۔
اچھا، اپنی اساس میں یہ ایک کھاتہ ہے، جس میں عموماً کسی حقیقی یا گھڑے ہوئے کردار یا واقعے کا بیان ہوتا ہے، جو تفریح کے لیے، سنایا جائے۔
یہ ایک بیانیہ ہے۔ ایک ماجرائی بیانیہ۔ مگر یہ غیرماجرائی بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کرداروں کے بوجھ سے آزاد بھی۔ البتہ ”واقعہ“ وہ آخری شے ہے، جو اس سے چمٹی رہے گی۔ بنا واقعے کے ماجرائی بیانیہ گھڑنا بہرحال دشوار ہے۔
اچھا، تکنیکی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے یہ زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی اس میں ابتدائیہ (عام طور سے) موجود ہوتا ہے۔ اختتامیہ ہوتا ہے۔ مارکیز کے”تنہائی کے سو سال“ کو لیجیے۔ یا ہرمین ہیسے کے ”سدھارتھ“ کو۔ کہانی ایک مقام سے، ایک جہت سے شروع ہوتی ہے، اور دوسری جہت پر پہنچ کر، کم از کم کھاتے کی حد تک توختم ہوجاتی ہے۔ گو قاری کے ذہن میں وہ جاری رہتی ہے۔
عموماً فکشن میں Settingواضح ہوتی ہے۔ سمجھو، زمان و مکان کا حوالہ۔Time and space۔اور اس کا رول بڑااہم۔ جیسے فوسٹر کے ”اے پیسج ٹو انڈیا“ اور منٹو کے”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کی تفہیم میں Settingکلیدی کردار نبھاتی ہے۔ یہی معاملہ عبداللہ حسین کے ناول”اداس نسلیں“ کا ہے مگر کبھی کبھی یہ غیر واضح اور مبہم بھی ہوتی ہے۔ ”تکون کی چوتھی جہت“ ہی کی مثال سامنے ہے۔
اسی مانند کردار، پلاٹ اور پلاٹ کے عناصر، جیسے Exposition، Climax اور Resolution بھی اہم۔ مگر ان پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے کہ اِدھر ذرا آگے جاکر narrator اور point of view کا الجھاوا بھی ہے۔Rising Action اور Falling actionکا بکھیڑا الگ۔
تو بس، فی الحال یہی سمجھ لو کہ فکشن وہ کہانی ہے، جو کبھی تفریح طبع کے لیے سنائی جاتی تھی اور بعدازاں سماجی شعور سے لے کر سیاسی مقاصد تک کے لیے بطور آلہ استعمال کی گئی۔ اور کیا پتا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
رات گئے لیپ ٹاپ کے نوٹیفکیشن نے مجھے تمہاری تازہ ای میل کی خبردی۔
گویامیری گزشتہ ای میل نے تمہیں مایوس نہیں کیا۔ یہ خوش آئند ہے۔اور ایک حد تک پریشان کن بھی۔
خیر،توتم نے اس بار پوچھا ہے کہ نئے لکھنے والوں کو میرا کیا مشورہ ہے؟
میرے نزدیک ایک مشورہ جو نئے فکشن نگاروں کو دیا جاسکتا ہے، یا دیا جانا چاہیے، وہ مکالمے لکھنے سے اجتناب یا اس معاملے میں خصوصی احتیاط برتنے کا مشورہ ہے۔
چاہے آپ یقین کیے بیٹھے ہوں کہ آپ کے قلم سے نکلے مکالمے حقیقت کے قریب تر ہیں، بلکہ عین حقیقی ہیں، انسانی، زندہ، چلتے پھرتے۔تب بھی… احتیاط کریں۔
مارکیز جیسے بڑے کہانی کار نے بھی ”تنہائی کے سو سال“ میں جس شے سے اجتناب کیا، وہ مکالمے ہی تھے۔اور یہی کچھ اس نے ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ میں بھی کیا۔ اورلگ بھگ تمام بڑے لکھنے والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ ماجرے کو مکالمے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مکالمے سقم ہیں، بلکہ یہ کہ مکالمے دشوار ہیں۔ یہ ایک چنوتی ہے۔
مگرسوال ہے کیوں؟
دراصل فکشن کے بیانیہ کے برعکس، جس میں فکشن نگار زبان و بیان کا، تخیل کا جادو پھونک سکتا ہے، مکالموں میں یہ کام ذرا مشکل ہوتا ہے۔ کسی ادبی کردار کے مکالمے اُس کی زندگی کو ویسے ہی دکھاتے ہیں، یا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسی زندگی ہے۔ ان میں کوئی مسٹری، کوئی مہم نہیں ہوتی۔ مکالموں کی صورت سامنے آنے والی زندگی روکھی پھیکی اور بے رنگ ہوتی ہے۔اب اگر ہمیں اسی زندگی کو برداشت کرنا ہے، تومبارک ہو، فکشن پڑھنے کا ایک مقصد، یعنی اس سے مسرت کا حصول، بہرحال فوت ہوجاتا ہے۔
ہمیں شرلاک ہومز اور ہیری پورٹر کے طویل مکالمے تو اچھے لگ سکتے ہیں کہ وہ نامعلوم کو بیان کرنے کی سعی ہیں۔یا پھر دیگر جاسوسی ناولز کے۔ابن صفی کے عمران سیریز کے۔ البتہ سنجیدہ ادب کو مکالمے اکثر بوجھل ہی بناتے ہیں۔
اچھا،لکھنے والے پر لازم ہے کہ وہ پڑھے۔ مسلسل۔ ہر شے۔ ہر طرح کا ادب۔ ہر زبان کا ادب۔ بنا کسی تعصب اور تنگ نظری کے۔ بہ قول انتظار حسین، کھڑکی کھلی رکھے۔ بالخصوص فکشن نگار کہ جدید فکشن یا رائج فکشن کے سوتے مغرب ہی سے پھوٹے۔ تو ان پر نظر رکھے۔ اور اپنی زمین سے جڑنے کی سعی کرے۔ یعنی اپنے مشاہدات کو کام میں لائے۔ اور اپنا تجزیہ پیش کرے۔اور کچھ نہیں، تو ایسا کرنے کا ڈھونگ ہی کرلے۔
اور کچھ وہ پڑھے، جس کسی سے متاثر ہو، اس کی تقلید ضرور کرے۔ہوزے سارا ماگو یا گنتر گراس، جو بھی۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر خود پر اس کی چھاپ نہ لگنے دے۔ بقول اسد محمد خاں، اپنی راہ خود بنائے۔ اس کا اپنا اسلوب۔ اس کی اپنی بولی۔
آغاز میں لکھے، تسلسل کے ساتھ۔ مگر دھیرے دھیرے کہانی کے، ناول کے بنیادی عناصر کو پیش نظر رکھتے ہوئے قلم کو حرکت دے۔(وہی عناصر، جس پر گزشتہ ای میل میں ہم نے بات کی تھی، اور جس پر، اگر زندگی رہی، تو ہم مستقبل میں بھی بات کریں گے)
یاد رکھو پیارے۔ فکشن نگار کا وقت، فقط اس کا وقت نہیں۔ بلاواسطہ ہی سہی، قاری کے وقت کا بار بھی اُسی کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ وہ اپنے اور قاری، دونوں کے وقت کو سنوارنے یا برباد کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
اور یہ ادراک ہمیں اس سمت دھکیلتا ہے، جس سمت اردو فکشن نگار کم ہی جانا پسند کرتا ہے۔ یعنی اپنے لکھے کو ایڈٹ کرنا۔اپنے لکھے کو رد کردینا۔ اُس پر خط تنسیخ پھیر دینا۔اسے ضائع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اسے بہتر بنانے کے لیے۔
اردو ادیبوں کو جو ایک بڑا مسئلہ درپیش رہا، وہ اشاعت سے پہلے کسی اچھے ایڈیٹر سے محرومی تھی۔ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے ان کی وابستگیوں کے باعث وہ خود کو اِس سے قاصر پاتے تھے۔البتہ ایسے میں بھی مشتاق یوسفی اور اسد محمد خاں، یا حسن منظر جیسی روشن مثالیں موجود ہیں، جو آخر تک تحریر کو مانجھتے رہنے کی قائل رہیں۔
تو میرے عزیز، میرے دوست، تم بھی یہی کیا کرو۔