آج کے کالمملیحہ سید

پنجاب کے اساتذہ کی ہڑتال

ملیحہ سید
پنجاب میں سرکاری استاد، ان دنوں احتجاج پر ہیں اور یہ احتجاجی مظاہرے پورے پنجاب میں چل رہے ہیں۔ ٹیچرز کے احتجاجی مظاہرے میں ہونے والے مطالبات میں پنشن رولز میں ترامیم اور تعلیمی اداروں کی نجکاری پر اساتذہ کا احتجاج جاری ہے جس کے بعد اساتذہ کو گرفتار بھی کیا گیا اور کہیں کہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ اس وقت لاہور سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں کی سڑکوں پر اساتذہ سراپا احتجاج ہیں مگر ان کی کسی پلیٹ فارم پر شنوائی نہیں ہورہی اور نہ ہی ان کا موقف ذرائع ابلاغ پر دیکھنے کو مل رہا ہے، حکام اور اساتذہ کی لیڈر شپ مل بیٹھ کر یہ مسئلے حل کیوں نہیں کرتے، خالی بیانات دینے سے معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ ریاستی سٹیک ہولڈرز اور متاثرین کو مکالمے کی میز پر آنا ہی ہو گا۔ کیونکہ اساتذہ کی اس احتجاجی تحریک سے نقصان اور خسارے میں صرف طلبہ کا ہورہا ہے۔
ناقدین کا موقف ہے کہ ہوسکتا ہے گورنمنٹ ٹیچرز کے مطالبات درست ہوں لیکن منافقت کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ سرکاری استاد اپنے بچوں کو صبح پرائیویٹ سکول میں چھوڑنے کے بعد احتجاج میں شریک ہوتا ہے سکول کو تالا لگاتا ہے دھرنے میں شریک ہو کر غریب کے بچوں کا نقصان کر رہا ہے اور شام کو اپنی پرائیویٹ اکیڈمی میں پڑھاتا نظر آتا ہے۔ ان کا موقف یہ بھی ہے کہ یہی اساتذہ سرکاری سکول کی تالا بندی کی بجائے دوپہر 2 بجے چھٹی کے بعد احتجاج کرتے تو ہم اس کاز میں ان کا ساتھ دیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ اپنے وقت کا ضائع نہیں کر رہے بلکہ طلباء کے پہلے سے مخدوش مستقبل کے ساتھ مزید کھیل رہے ہیں جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ سوشل میڈیا پر اکثریت بھی اساتذہ کے موقف کی تائید کرتی نظر نہیں آتی۔ لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار اساتذہ کو رہا کرنے کا حکم دیاہے۔جسٹس شکیل احمد نے اللہ رکھا سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے اساتذہ کی گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا اور 114 اساتذہ کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر اساتذہ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی سیکٹر کے حوالے کر دینے سے اس میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ تباہی و بربادی کا نیا دور شروع ہو جائے گا۔ وہ بھی ان حالات میں جب پاکستان کے کروڑوں بچے تعلیم اور تعلیمی اداروں سے محروم ہیں، ایسے میں یہ اقدام پاکستان کو مکمل طور پر اندھیروں کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کی پالیسی پرانی اور سابقہ حکومتوں کے دور سے چل رہی ہے۔ اس کی وجوہات یہ بھی بتائی جاتی ہیں کہ سرکاری سکول، اس کی عمارتیں، سٹاف سب کچھ موجود ہے مگر سکولوں کے تعلیمی معیار میں بہتری نہیں آ رہی جس پر حکومت پنجاب نے مختلف ادوار میں مختلف سکیمیں شروع کی تھیں۔ اس پالیسی کے تحت صرف مسلم ہینڈ نامی تنظیم ہی نہیں بلکہ 29 مزید غیر سرکاری اداروں کو بھی سکولوں کا انتظام دیا گیا۔ 2017 میں مسلم ہینڈ کو آغاز میں 30 سکول دیے گئے تھے۔ ان سکولوں کی کارکردگی کو شاندار پایا گیا تو حکومت ہی کی خواہش پر اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں دو سو سکولوں کا انتظام مسلم ہینڈز کے پاس ہے۔پہلے حکومت سرکاری اساتذہ کو ہر طالب علم کی سبسڈی میں سات سو روپے دیتی تھی۔ اب اس وقت یہ پندرہ سو روپے فی طالب علم ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارے مختلف ڈونرز سے سکولوں کے لیے عطیات وصول کرتے ہیں اور ان کو سکولوں پر خرچ کرتے ہیں۔دوسری جانب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں اور ماں باپ سے کوئی بھی فیس وصول نہیں کی جاتی بلکہ جن پسماندہ علاقوں میں سکول مسلم ہینڈز کے پاس ہوتا ہے، وہاں پر فلاح کے کام بھی کیے جاتے ہیں۔ جس وجہ سے ان علاقوں میں لوگوں کی اکثریت اس طریقہ ہائے کار کی حامی ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے طاقتور حکومتی اداروں نے رواں سال کے مالی بجٹ میں اساتذہ کے پنشن رولز میں ترامیم کی تھیں، جس کے بعد تعلیمی اداروں کی نجکاری کر کے وقتی طور پر جگاڑ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل کی 26 فیصد نجکاری کر کے اس کے ملازمین کا معاشی قتل کیا گیا۔ پی ٹی سی ایل کے ملازمین زندہ درگور ہو ئے مگر آج تک اس ظلم پر کوئی نہیں بولا۔ اب محکمہ تعلیم کی باری ہے۔ اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔ مگر دوسرے محکموں کے ملازمین اس لیے چپ ہیں کہ ابھی انکی باری نہیں آئی۔ جب انکی باری آئے گی پھر باقی لوگ بھی خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں تعلیم کو جب سے انڈسڑی کا درجہ دیا گیا ہے جس کے بعد تعلیم حاصل کرنا عام آدمی کے بس سے باہر ہو گیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھاری بھر کم فیس وصول کرتے ہیں۔ مگر اپنے ملازمین کو بہت کم تنخواہ دیتے ہیں۔ ایک گھر کرائے پر لے کر سکول،کالج اور یونیورسٹی کے کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ تعلیم کا معیار بہت گر چکا ہے۔ رٹا سسٹم کے تحت صرف طوطے تیار کیے جا رہے ہیں۔ نمبر پوچھو لو تو 97 فیصد مگر طالب علم کا ذہنی معیار صفر ہے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے کئی نئے سیٹھ تو پیدا کر دیے مگر سستی اور معیاری تعلیم کا حق لوگوں سے چھین لیا۔
حکومتی ناقدین کا موقف ہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں پر قابض طاقتور اشرافیہ نے اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کی بجائے دوسرے کمزور اداروں پر چھری چلانا شروع کر دی ہے۔ تاکہ آئی ایم ایف کے دباؤ کو کم کیا جا سکے،ڈوب چکی ملکی معیشت کو سہارا دیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کتنے دن ادارے بیچ کر گزارا کیا جاتا رہے گا۔؟وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتیاں کرنی ہیں تو سب سے پہلے حکومتی وزرا، صدر، چیئرمین سینیٹ، بیوروکریسی، اراکین اسمبلی غرضیکہ سبھی پر یہ کٹ لگائے جائیں۔ ان کے پروٹول کے ساتھ گاڑیوں کا کارواں پانی سے نہیں چلتا۔ مہنگا پٹرول پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ یہ اوپر سے اُتری ہوئی مخلوق نہیں کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر یہ اشرافیہ عیاشی کرے۔ بیچنا ہے تو سارے ادارے بیچ دیں آئی ایم ایف کو،وہ ان سے بہتر ملک چلا لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button