نگران حکومت کی بہترین کارکردگی اور سیاسی منظر نامہ
محمد آصف بٹ
میں اسلام آباد میں تھا اوربڑے بھائی جیسے دوست اور بہترین انسان اور محکمہ اطلاعات کے بہترین بیورو کریٹ عاصم کھچی صاحب سے ملاقات کرنے کے لئے نکلا تھا۔میں نے اسلام آبادیعنی شہر اقتدار میں کچھ بے چینی اور افراتفری جیسی صورتحال محسوس کی کہ پہلی بار شہر اقتدار کے باسیوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے، اور کون کس کے ساتھ ہے، اور کون نہیں۔ دنوں اورگھنٹوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں سیاسی منظر عام تبدیل ہورہا تھا۔ کافی عرصے بعد اسلام آباد کی فضاؤں میں گھومنے کا موقع ملا تو دیکھا کہ میرے کالم کے عنوان ”نیا موڑ“ کی طرح اسلام آباد میں بھی کافی نئے موڑ بن چکے ہیں۔ دل چاہا کہ ماضی اور حال کی سیاست، خصوصاً پارٹیوں کی سیاست، نظریات، اصول، دعوے، بیانات اور موقف جس کو اصولی موقف کانام دیا جاتا ہے، اِن سب پر نظر ڈالی جائے۔ سب سے پہلے ہم نے جمہوریت کی دعوے دار پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست پر نظر ڈالی، سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹوشہید، ان کی صاحبزادی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید، ان کے خاندان کے افراد، قریبی سیاسی ساتھیوں، کارکنان، ان کے خاندانوں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اپنی جانوں کے نذرانے دے کر نظریات اور اصول پسندی کی قیمت ادا کی۔ آج پیپلز پارٹی کے اندر جو بھی موجود ہے، خواہ وہ پیپلز پارٹی کا رہنما ہے یا کارکن، سبھی آج بھی اپنے اِسی موقف کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں لیکن آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے جیالے اب پاکستان تحریک انصاف میں جارہے ہیں کیونکہ انہیں چیئرمین اور کو چیئرمین کی سیاسی حکمت عملی پسند نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو نئی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے بے حد نقصان اٹھانا پڑا، نتیجتاً اب پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعوے دار اور چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جاتی تھی اب سُکڑ کر سندھ کے علاوہ پورے ملک میں سیاسی لحاظ سے کمزور پارٹی ہے۔
مسلم لیگ نون کی بات کریں تو تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کے مسلم لیگ میں قائم ایک دھڑے نے مسلم لیگ میں مسلم لیگ نون کے نام سے دھڑا بنایا جو تیزی کے ساتھ ایک بڑی اور ملک گیر پارٹی کے طور پر سامنے آیا۔ میاں محمد نوازشریف کو اِس کا سربراہ مقرر کیاگیا جس کے بعد میاں نواز شریف پاکستان کے سب سے کامیاب ترین سیاستدان اور سیاست کے سلطان بن گئے، اُن کی کئی بار حکومتیں ختم ہوئیں، عدالتی سزاؤں، جلاوطنی اور شدید مشکلات کا سامناکرنا، میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ، بچوں، بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کو سخت ترین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن میاں نواز شریف ہر بار اپنی پارٹی اور عوام کو مشکل سے نکالنے میں کامیاب ہوئے اور اب ایک بار پھر وہ اُمید پاکستان بن کر دوبارہ سیاسی میدان میں سیاسی چمپئین کے طور پر قدم رکھ رہے ہیں۔
سیاسی بصیرت رکھنے والی مولانا مودودی ؒ کی جماعت، جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت ہمیشہ سب سے زیادہ مضبوط، ثابت قدم اور بہترین رہی ہے، اِس جماعت میں خاندانی یعنی وراثتی سیاسی کی قطعی جھلک نظر نہیں آتی، یہاں شوریٰ کے فیصلے سے پارٹی سربراہ کا انتخاب کیا جاتا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات بروقت ہوتے ہیں، جماعت اسلامی پاکستان، پاکستان کے تمام صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی جماعت ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی میں ملک کے نامور، نظریاتی اور اصولی موقف رکھنے والی لیڈر شپ ہمیشہ موجود رہی ہے اسی لیے جماعت اسلامی کو ”سیاست کی اکیڈمی“ کہا جاتا ہے۔ ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہرے اور روڈ شوکرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مگر آج تک وزارت اعظمیٰ کے منصب تک نہیں پہنچ سکی۔
اب بات کرتے ہیں چند سالوں میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے والی پاکستان تحریک انصاف کی، جس کے سربراہ سابق کرکٹر اور سابق وزیر اعظم عمران خان ہیں، ملک کی ترقی، انصاف عام اور کرپشن کا خاتمہ، کرپٹ افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی اور لوٹا کلچر ان کے نظریات اور موقف کا بنیادی اور اہم حصہ رہے ہیں۔ وہ ملکی اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو پڑھا لکھا اور خود مختار پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، عمران خان کا یہ موقف چند سال تک خوب سراہا گیا اور لوگو ں نے پسند بھی کیا، تاہم جب عمران خان نے جمائما خان سے علیحدگی کے بعد یکے بعد دیگرے شادیوں کا سلسلہ شروع کیا تو ان کی پارٹی کا زوال بھی شروع ہوگیا، پارٹی پر خواتین کی اجارہ داری کی پہلے باتیں سامنے آئیں پھر ثبوت منظر عام پر آنا شروع ہوگئے، پارٹی پر خواتین نے گرفت مضبوط کرنا شروع کردی،اب بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنیں بھی غیر اعلانیہ طور پر سیاست میں حصہ لے رہی ہیں، ان سے پہلے ریحام خان بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی سنی اور دیکھی گئی ہیں۔ بہرکیف پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ سے خواتین اور نوجوان نسل کی پسندیدہ پارٹی رہی ہے جو کسی بھی صورت، عمران خان پر کوئی الزام سننا پسند نہیں کرتے مگر پی ٹی آئی کے رہنما اپنی نظریاتی سوچ و بچار اور اصولی موقف اختیار کرنے کے معاملے میں بہت کمزور نکلے ہیں، جو سمندر کی گہرائیوں میں جانے کا دعویٰ کرتے تھے اب وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہر میں بھی ڈوبکیاں لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اسی لیے وہ نظریات اور سیاست سے دور بھاگنے لگے ہیں، شاید پاکستان میں اتنی تیزی سے کسی جماعت کے رہنماؤں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا جتنا تیزی سے عمران خان کے بعد کی پی ٹی آئی کی لیڈر شپ نے کیا ہے۔ بہرکیف جتنی تیزی سے رہنما و کارکنان اپنا سیاسی موقف تبدیل کررہے ہیں اور قومی اداروں کی حفاظت کرتے کرتے انہی پر حملہ آور ہوگئے ہیں، یہی نہیں بلکہ کاروبار بند کرانے اور انتشار پھیلانے کی پہچان بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف سے اپنے لیڈر کے دو دو ہاتھ کراتے، اپنی غلطیوں سے اپنا ہی لیڈر عمران خان اور پارٹی اندر (جیل)میں کروابیٹھے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ساڑھے تین سال میں کوئی قابل تعریف اور قابل ذکر کام نہیں کرسکی، جس کا کریڈٹ وہ کسی پلیٹ فارم پر لے سکے۔ بہرکیف اب نئی سیاسی پارٹی جہانگیر خان ترین، عبدالعلیم خان اور فردوس عاشق اعوان جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کی ٹیم کے ساتھ سیاسی میدان میں آئی ہے۔ ملک میں باقی تمام سیاسی پارٹیاں صوبوں تک محدود ہیں، اور اِن کی سیاست بھی صوبائی سیاست ہی کہلاتی ہے۔
سیاسی گپ شپ کے ساتھ ”نیا موڑ“ میں پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ زرائع کا کہنا ہے کہ ابھی پٹرول مزید ایک سو روپے سے زیادہ سستا ہوگا، اس کے ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان بھی سستا ہونے والا ہے، بند انڈسٹریز کو دوبارہ چالو کرنے کا فیصلہ ہے، سبزیاں، دالیں، گاڑیاں اور فرنیچر سستا ہونے والا ہے اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں بھی ریل پیل ہونے لگی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبارمیں اضافے کے اثرات نظر آرہے ہیں، مگر دیکھنا ہوگا کہ یہ سب کچھ کیا الیکشن تک ہے، یا الیکشن کے بعد بھی عوام کو ریلیف کی خوش خبریاں ملتی رہیں گی۔