آج کے کالمشیخ محمد انور

پاکستان ریلوے شدید مالی بحران کا شکار

شیخ محمد انور

پاکستان ریلوے ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے اور دن بدن تباہی کے دہانے کی طرف جارہا ہے۔ آج حالات یہ ہوچکے ہیں کہ سالانہ 64 سے 65 ارب کمانے والے ادارے کے ملازمین تنخواہوں، پنشن اور دیگر واجبات کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ریلوے کے سی ٹور اور ڈی ٹور کے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ ٹی ایل اے کا ملازم ایک دن چھٹی کرلے تو اُس کا نام خارج کر دیا جاتا ہے۔ کسی خوشی غمی میں بھی شامل نہیں ہوسکتے اور 8گھنٹے کی بجائے 10گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں مگر نہ تو ٹی ایل اے والوں کو مستقل کیا جارہا ہے اور نہ ہی نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ ایک ایک بندے پر تین تین بندوں کے کام کا بوجھ ڈالا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ریلوے ملازمین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ، سروسز کے ادارے، ہسپتال، ایجوکیشن کے ادارے، سیکرٹریٹ، اے جی آفس اور زراعت کے ادارے کیا پاکستان کی حکومت کو کما کردیتے ہیں؟ اُن کے ملازمین کو تنخواہیں تو بروقت مل جاتی ہیں جبکہ ریلوے ملازمین کو نہ تو ریٹائرمنٹ کے واجبات بروقت ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی تنخواہیں اور پنشن بروقت دی جارہی ہیں جس کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ ریلوے ملازمین آج ذہنی مریض بن چکے ہیں اور ان کی یہ پریشانی کسی بھی وقت ریلوے میں خوفناک حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو پھر پولیس، عدلیہ، سروسز، ہسپتال، سیکرٹریٹ، وفاقی اور صوبائی وزراء، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور دیگر وفاقی اور صوبائی ملازمین کو تنخواہیں بروقت ملتی ہیں مگر ریلوے کو تنخواہیں بروقت کیوں نہیں ملتی؟ ریلوے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کون کررہا ہے؟ کسی بھی حکومت نے ریلوے کی اہمیت کو نہ سمجھا۔ حکومتوں کی توجہ موٹروے، ہائی وے، رنگ روڈ، میٹروبس اور اورنج ٹرین پر مرکوز ہے جبکہ پاکستان ریلوے ایک دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے۔ یہ چاروں صوبوں کی خوبصورت زنجیر ہے، پاکستان کی وحدت کی علامت ہے اور ٹرین کو دیکھ کر پاکستان کی عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ گزشتہ 76 سالوں سے جس طرح اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کھیلا گیا اور صرف 24 سال بعد آدھا پاکستان حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور غلط حکمتِ عملی کی وجہ سے ہم سے جُدا ہوگیا۔ انہی حکمرانوں کی مہربانی سے آج وطنِ عزیز کا خزانہ خالی ہوچکا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ یہ ملک خدانخواستہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ میں پاکستانی فوج اور قوم کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر صاحب سے اپیل کروں گا کہ جس طرح اُن کے جوانوں نے چار چپیڑیں مار کر ڈالر کو جوکہ دن بدن آسمان کی طرف جارہا تھا اپنی فہم و فراست سے زمین بوس کیا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کا طورخم بارڈر، چمن بارڈر، تفتان بارڈر میں سمگلنگ کو آہنی ہاتھوں سے روک دیا گیا ہے۔ ڈالر مافیا، گولڈ مافیا، سٹیل مافیا دن بدن زمین بوس ہوتے جارہے ہیں، خدارا اس قومی، دفاعی، فلاحی اور وحدت کی علامت جیسے ادارے پاکستان ریلوے کو جوکہ بذات خود ایک منی پاکستان ہے اس پر توجہ دیں اور اس خوبصورت ادارے کو جس کے پاس آج بھی اربوں ڈالر کی بہترین زمینیں موجود ہیں کوئی سپریم کورٹ کے جج، دیانتدار افسران سول بیوروکریسی پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جوکہ شفاف طریقے سے ریلوے کی زمینوں کو چائنہ اور جاپان کے ماڈل پر پرائیویٹ سیکٹر میں دیں اور شفاف قسم کے معاہدے کیے جائیں جن کے اندر کوئی بھی پارٹی نہ تو عدالتوں سے سٹے لے سکے اور نہ ہی ڈیفالٹ ہوسکے اور اگر کوئی پارٹی ڈیفالٹ کرتی ہے تو اس سے فوری طور پر ریلوے اپنی زمین اپنے کنٹرول میں لے۔ اگر یہی کام ریلوے کی لینڈمینجمنٹ اتھارٹی نے کیا تو پھر ریلوے میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوگا جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ریلوے کی لاکھوں ایکڑ خالی زمینیں موجود ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر قبضہ ہوچکا ہے۔ اس قبضے کو بھی واگزار کروانا چاہیے یا پھر اُن سے موجودہ ریٹ کے مطابق رقم لے کر اُن کے حوالے زمینیں کر دی جائیں۔ خالی زمینوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مل کر بڑے بڑے ہوٹل، ٹاور، مارکیاں، مارکیٹیں اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ مل کر بزنس کیا جائے تاکہ ریلوے کے مالی حالات بہتر ہوسکیں۔جس طرح چائنہ اور جاپان نے اپنی ریلوے کی خالی زمینوں پر رئیل اسٹیٹ کا بزنس کیا ہے اور حال ہی میں انڈیا حکومت نے اپنی پارلیمنٹ سے بل منظور کروایا ہے اور وہاں پر بھی لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال صاحب نے بھی ریلوے کی زمینیں صوبائی حکومتوں سے لے کر پاکستان ریلوے کے حوالے کردی ہیں جس کا پی ڈی ایم کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں بھی لینڈ مینجمنٹ اتھارٹی کا بل منظور کرلیاگیاہے۔ وزارتِ ریلوے کو ایک طرف تو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے رابطے کرنے چاہئیں اور دوسری طرف فریٹ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر ڈویژن کے کمرشل اور ٹریفک کے افسروں کے ذمے لگایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گُڈز ٹرینوں پر توجہ دیں اور جو پیسنجر ٹرینیں کورونا کے نام پر بند کی گئی تھیں (عوام ایکسپریس، جناح ایکسپریس، اکبر بگتی ایکسپریس، ملتان ایکسپریس، بولان میل، خوشحال خان خٹک ایکسپریس، شاہ حسین ایکسپریس، فیصل آباد ایکسپریس، چلتن ایکسپریس، سرگودھا ایکسپریس، بلھے شاہ ایکسپریس، شاہ سوار ایکسپریس) اور دیگر بند ٹرینوں کو جلدازجلد بحال کیا جائے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی دعوت دی جائے کہ وہ اپنی کوچیں، ویگنیں اور انجن لے کر آئیں اور ٹریک کو استعمال کرکے اس پر ٹرینیں چلائیں اور ریلوے کو ٹریک کا مناسب کرایہ دیا جائے جس سے ریلوے کی آمدنی میں بغیر کچھ خرچ کیے کافی اضافہ ہوگا۔ جس طرح حکومت نے موٹروے اور ائیرپورٹ بنائے۔ کراچی پورٹ گورنمنٹ نے بنائی، دنیا بھر سے بحری جہاز آتے ہیں، کرایہ دیتے ہیں اور وہاں پر سامان اُتار کر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کا ماڈل دنیا کی بے شمار ریلویز میں رائج ہے اور بہترین کمائی کا ذریعہ ہے۔ صرف مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے ذریعے ریلوے کے حالات بہتر ہونا ممکن نہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش قوتیں ریلوے کی نجکاری کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ نجکاری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ نجکاری کی بجائے ریلوے کے بزنس کو بڑھایا جائے اور ریلوے میں سے افسران کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جائے اور ضرورت سے زیادہ افسران کو پاکستان کے دیگر اداروں میں بھیجا جائے۔ جب ریلوے دن بدن سکڑتی چلی جارہی ہے تو پھر کیا جواز ہے کہ افسران کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان ریلوے محض ادارہ نہیں بلکہ پاکستان کا چھٹا صوبہ ہے اور صوبوں کی نجکاری نہیں کی جاتی۔پاکستان ریلوے وفاق کی علامت ہے اسکا درجہ منی پاکستان جیسا ہے۔ پاکستان ریلوے ملک کی معاشی خوشحالی کی کنجی ہے۔ علاقائی تجارت کا فروغ ایک مضبوط ریلوے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ریلوے اس ملک کے ہر طبقے کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ امیر، غریب اور متوسط طبقے کو باعزت وسیلہ سفر فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ریلوے کے مزدور اور دیانتدار افسران اس کو خطے کی بہترین ریلوے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان آرمی کے چیف اور وزیراعظم پاکستان ریلوے کے استحکام اور خوشحالی پر غور کریں اس سے پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کی بنیاد بنے گی۔ میں نے اپنی ریلوے کی زندگی کا آغاز 29 جون1985؁ء میں کیا۔ اُس وقت ریلوے میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد ملازم تھے۔ اُس وقت ریلوے کا ایک جنرل مینیجر21ویں گریڈ کا ہوتا تھا جبکہ آج ریلوے میں جنرل مینیجر 22ویں گریڈ کا، تین ایڈیشنل جنرل مینیجر 21ویں گریڈ کے، ڈی جی والٹن21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی ریل کاپ 21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی پراکس 21 ویں گریڈ کا، ایم ڈی PRFTC 21ویں گریڈ کا، سیکرٹری ریلوے بورڈ21 ویں گریڈ کا، آئی جی ریلوے 21ویں گریڈ کا، 20ویں گریڈ، 19 ویں گریڈ، 18ویں گریڈ اور 17ویں گریڈ کی فوج ظفر موج موجود ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ریلوے ایران میں چلی گئی ہے یا یہ ریلوے افغانستان میں چلی گئی ہے؟ کیا ریلوے انڈیا میں چلی گئی ہے؟ ملازمین سکڑتے چلے گئے اور افسران بڑھتے چلے گئے۔ پاکستان ریلوے کی بیوروکریسی کو چاہیے کہ اپنے ذاتی لڑائی جھگڑوں کو بھول جائیں اور اس ڈوبتے ہوئے قومی ادارے کو ٹریک پر لانے کی کوشش کریں۔ گزشتہ مہینوں سرہاری ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خوفناک حادثے کے بعد ریلوے کے چھوٹے چھوٹے ملازمین اور افسران کو معطل کردیاگیاہے۔ میرے نزدیک یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس حادثے کی اصل ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے والے حادثوں کی ذمہ داری بھی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ 76 سال سے پاکستان میں کسی بھی حکومت نے پاکستان ریلوے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جو بھی حکومت آئی اُس نے کھلواڑ کیا۔ 2013؁ء سے حکمران ایم ایل ون، ایم ایل ون کھیلنے میں مصروف ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان ریلوے کا بدترین نقصان ہوا، ٹریک بہہ گیا، اس کے باوجود ریاست نے کوئی پیسہ نہیں دیا، ریلوے کے گینگ مین، کی مین، میٹ اور افسران 10 فٹ گہرے پانی میں کام کرتے رہے، خود بڑے بڑے شگاف پُر کیے۔ دو مہینے کی شب و روز محنت کے بعد اس لاوارث اور خونی ٹریک کو بحال کیا۔ اس کے باوجود ریاست کو ترس نہ آیا۔ وفاقی وزیر ریلوے اسمبلی میں کھڑے ہوکر شور مچاتے رہے، راقم الحروف نے خود پریم یونین کی قیادت کرتے ہوئے پورے ملک میں پشاور سے لے کر کراچی اور کراچی سے لے کر کوئٹہ، چمن، دالبندین کے سیکشنوں پر جلسے جلوسوں میں بے رحم حکومت سے بیل آؤٹ پیکیج کی اپیل کرتی رہی لیکن اس کے باوجود ریاست کو ترس نہ آیا۔ اب حادثے کے بعد ریلوے ملازمین کو معطل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ میں اس ملک کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے اپیل کروں گا کہ ان حادثات پر عدالتی کمیشن بنایا جائے اور جن جن حکومتوں نے اس ادارے کے ساتھ ناانصافی کی ہے اُن کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اس کی بے لاگ تحقیقات کی جائیں۔ کب تک یہ چھوٹے چھوٹے ملازمین پر حادثوں کا ملبہ ڈال کر اپنی جانیں چھڑواتے رہیں گے۔ ریلوے افسران اور ملازمین آج بھی ایک عزم لیے ہوئے ہیں کہ ہم نے ہرصورت میں اس ادارے کو بحال کرنا ہے۔ ہم مل کر کام تو کرسکتے ہیں مگر وسائل مہیا کرنا تو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر اب بھی ریاست نے وسائل نہ دئیے تو پھر ریلوے کو میں مستقبل میں بند ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جو ایک دفاعی، فلاحی اور وحدت کی علامت جیسا ادارہ ہے۔ زمانہ امن اور زمانہ جنگ کی صورت میں اس ادارے کا ایک کلیدی کردار ہے اور پاکستان کی بہادر فوج کی ٹرانسپورٹیشن کا انحصار بھی اسی ادارے پر منحصر ہے۔ اگر اس ملک کو پولیوشن فری بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو موٹروے، ہائی وے اور این ایچ اے کی طرح پاکستان ریلوے کو بھی پروموٹ کرنا ہوگا۔ اس میں سعودی عرب، جاپان، چائنہ اور انڈیا کی طرح انویسٹمنٹ کرنی پڑے گی۔ پاکستان ریلوے کا پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک 1800 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔اس میں صحرا، دریا، نہریں، جنگل اور ریگستان کا علاقہ شامل ہے۔ اس ٹریک کی 24 گھنٹے پٹرولنگ ہونی چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button