بدحال کسان
شاہد مقصود سرویا
حکومت کی جانب سے ملک میں مہنگائی کم ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے، لیکن زمینی حقائق بالکل حقیقت کے برعکس ہیں۔ عام آدمی کے لیے موجودہ حالات میں دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بجلی کی صورت حال تو سب کے سامنے ہے۔ بجلی کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں کی بھرمار نے لوگوں کے گھروں کا بجٹ متاثرکردیا ہے، جن پیسوں سے لوگ اپنے گھرکا راشن لے کر آتے تھے، اب وہ اُنہی پیسوں سے بجلی کا بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔۔
ملک کے سیاست دان تو ویسے ہی ناکام ہوچکے ہیں، ان سے بہتری کی کسی بھی صورت اُمید نہیں کی جاسکتی۔ دنیا نے ترقی کرتے کرتے چاند تک رسائی حاصل کرلی ہے لیکن ابھی تک ہم نیا پاکستان اور پرانا پاکستان کے چکروں سے باہر نہیں نکل سکے۔
قرضوں کے بوجھ تلے دبا یہ ملک آئی ایم ایف کی شرائط مانتے مانتے تباہی کے دھانے پر جاپہنچا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی صنعت و تجارت اور زراعت قریباً ہر شعبے کو نقصان سے دوچار کیا جارہا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں تو کسی بھی صورت وسائل کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو مختلف موسموں سے نوازا ہے، ہمارے ملک کی آب و ہوا زراعت کے لیے بہت سازگار ہے، کہنے کی حد تک تو زراعت کا شعبہ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ لوگ کھیتی باڑی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ کھاد، بیج اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں مگر سرسوں، چاول، مکئی اور کپاس سمیت مختلف فصلات کے دام مناسب نہ ہونے کے باعث بے چارے کسان معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔
شاید وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی نظر سے زراعت کا شعبہ ابھی تک اوجھل ہے، امسال حکومت نے 8500روپے، کپاس کی امدادی قیمت مقرر کی تھی۔ بدقسمتی سے وہ بھی کسانوں کو نہ مل سکی۔ کسان قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے لیکن حکومتی سطح پر اِس اہم مسئلہ کی طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ملک و قوم کے لیے اناج پیدا کرنے والا خود بھوک سے لڑنے پر مجبور ہے۔
یہ معاشی ناانصافی آخر کب تک جاری رہے گی، اس ملک و قوم کے لیے ہر دن کوئی نہ کوئی مسئلہ لیکر ہی آرہا ہے۔ نجانے ظلم کی یہ رات کب ختم ہوگی۔ ہر شعبے میں موجود مافیاز ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ کسان کو جب زرعی اجناس کی صحیح قیمت نہیں ملے گی تو وہ کیسے کاشتکاری جاری رکھ سکتا ہے۔ کسان پہلے ہی معاشی مسائل سے نبرد آزما ہے، اوپر سے حکومت آٹھ ایکڑ سے زیادہ رقبہ کاشت کرنے والے کسانوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پر تول رہی ہے۔ زرعی ٹیکس رہی سہی زرعت بھی ختم کردے گا، اگر ایسا ہوا تو زراعت میں خود کفالت ایک خواب ہی رہے گا، آٹا اور چینی بحران ختم نہیں ہوں گے۔
عالمی انسانی منشور کے لحاظ سے معیاری خوراک ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں آج معاشی کسمپرسی کے باعث لاکھوں لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، اس سے نہ صرف سالانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی لاغر انسانوں کا جم غفیر بھی اکٹھا ہورہا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت مختلف سکیمیں تو بنارہی ہے لیکن مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل زرعی خود کفالت اور کسان کی خوشحالی میں پوشیدہ ہے، کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔
صوبہ پنجاب زراعت کے حوالے سے ایشیا کی فوڈ باسکٹ کہلاتا ہے، اس سے آپ زرعت کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے بہت سے امید وابستہ کیے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے ضرور کوشش کریں گے۔ بے چارہ کسان تو خسارہ برداشت کرنے کے باوجود اناج پیدا کرکے اپنا فرض ادا کررہا ہے لیکن حکومت وقت اور ریاست اپنے فرائض سے غافل ہے۔
کسان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ نون یا پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بنائے، کسان تو بس اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے، وہ تو چاہتا ہے کہ حقیقی معنوں میں ملک کے اندر جمہوریت ہو، اس میں تو کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ملک میں صنعتوں کے لیے خام مال تو زرعی شعبہ ہی مہیا کرتا ہے، اگر زراعت کا شعبہ بدحالی سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اثرات صنعتی شعبے پر بھی نظرآئیں گے۔
اب بھی وقت ہے حکمران طبقہ ہوش کے ناخن لے، ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے بہت سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا تعلق زمین دار گھرانوں سے ہے، یہ لوگ زراعت اور اِس سے شعبہ سے وابستہ افراد کی مشکلات کو جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں، اگر یہ لوگ اسمبلی میں جاکر بھی خاموش رہیں گے تو پھر عوام کے حق کی بات کون کرے گا؟ جب ان کے اپنے مفادات کی بات ہوتی ہے تو سب سیاست دان اکٹھے ہوجاتے ہیں اور جب عوام کے حقوق کی بات ہو تو پھر مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا ہے۔ لہٰذا سیاست دانوں یہی وہ رویہ ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔