ویلکم نوازشریف۔۔۔۔!
غلام مصطفی
کل 21اکتوبر کومیاں نوازشریف نہ صرف وطن واپس آئیں گے بلکہ وہ قومی سیاست میں حصہ لیکر اسے بہتر بنائیں گے جسے گالم گلوچ کی سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیاتھا جس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ضرورہوں گے۔نوازشریف کی غیر موجودگی میں ملک کو جن بحرانوں کا سامنا رہا ہے نوازشریف ان سب سے بخوبی واقف ہیں اور ان کا حل بھی جانتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں مکمل موقع ملناچاہیے تاکہ وہ ملک سے معاشی سیاسی و سماجی عدم استحکام کوختم کرسکیں۔یہ بات حقیقت ہے کہ موجودہ پاکستان اور اس کی عوام ماضی سے بہت مختلف ہوچکے ہیں اور عوام میں سوشل میڈیا کے ذریعے شعور کسی حد تک آچکاہے، آئندہ انتخابات کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوں گے۔ سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مملکت خداداد پاکستان کو معاشی وسیاسی اور اخلاقی بحران میں دھکیلنے اور قومی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے کردار قومی مجرم ہیںان کرداروں کو عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ملک اس وقت معاشی طور پرتباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ میاںنوازشریف حالات درست کرسکتے ہیں، پوری قوم ان کی آمد کا انتظار کر رہی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا نوازشریف نے وطن عزیز کو مشکل سے نکالا ہے۔ایٹمی دھماکے بھی نوازشریف نے ہی کئے تھے۔اگر نواز شریف کو اقتدار سے نہ نکالا جاتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا اور نہ ہی عوام کو اس جان لیوا مہنگائی کاسامناکرنا پڑتا۔ عوام کو یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ لوڈ شیڈنگ بھی نواز شریف کے دور میں ہی ختم ہوئی تھی اور کراچی میں امن بھی انہی کے دور میں آیاتھا۔ میاں نوازشریف گالم گلوچ اورالزامات کی نہیں بلکہ صاف ستھری سیاست پریقین رکھتے ہیں۔
عام انتخابات کے لیے حالات سازگار ہوں گے یا نہیں اور انتخابات میں کون سی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی، نوازشریف اور عمران خان آئندہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یانہیں؟ کیا دونوں جماعتوں کے درمیان موجود اختلافات ختم ہوجائیں گے؟ ملک سے موروثی سیاست کاخاتمہ کب ہوگا؟کیا ہماری سیاست اور ملک اسی طرح چلتے رہیں گے؟ کیا اس طرح کسی ملک کا کاروبار چل سکتاہے؟ جمہوریت پسند جماعتیں اقتدار میں آکر جمہوریت کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچاتیں؟ موجودہ صورتحال میں نوازشریف اور عمران خان کامستقبل کیا ہوگا؟یہ سب وہ سوالات ہیں جوعام آدمی کے ذہن میں گھوم رہے ہیںاور ہرجگہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ تو اپنا کام کررہی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کا کردار اچھا نہیں ہے۔ اگر میاں نواز شریف کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہ مل سکا تو ان کے پاس متبادل کے طور پر بہت سے دیگرآپشن موجود ہیں لیکن پی ٹی آئی کے پاس شاید اس موقع پر کوئی آپشن نہیںہے، کیونکہ جس طرح بانی ایم کیو ایم کے مائنس ہونے کے بعد ایم کیو ایم کا شیرازہ بکھر گیا، اسی طرح پی ٹی آئی کا بھی عمران خان کے بغیر یہی حشر ہوسکتاہے‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایسا نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی جب سابق جنرل پرویز مشرف(مرحوم) کی حکومت تھی تو مسلم لیگ(ن) کو توڑ کر اس میں ایک نئی جماعت مسلم لیگ (ق) بنائی گئی تو اس وقت یوں محسوس ہوتاتھا کہ اب شاید نوازشریف کا چیپٹر کلوز ہوچکا اور وہ شاید اب کبھی بھی نہ تو پاکستان واپس آسکیں گے اور نہ ہی اقتدار میں لیکن وقت نے کروٹ لی اور پھر نہ صرف نوازشریف وطن واپس آئے بلکہ تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بھی بن گئے لیکن بدقسمتی سے نوازشریف اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات مضبوط نہیں بناسکے، نوازشریف کو اپنے سابقہ بیانیہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جس کے باعث اسٹیبلشمنٹ اوران کے درمیان فاصلے مزید بڑھے اور نوازشریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
دوسری طرف ہماری قومی سیاست میں کافی عرصے سے سیاسی گھٹن محسوس کی جارہی ہے، جس کی بہت سی وجواہات ہیں، ایسی صورت میں نوازشریف کی پاکستان آمد اور قومی سیاست میں دوباروہ انٹری سیاسی ماحول کو بہتربنانے میں مدد دے گی۔ اس وقت پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کی بدترین محاذ آرائی کے دور سے گزررہاہے اور سیاسی میدان میں کوئی ایسی شخصیت(سوائے نوازشریف کے) نظر نہیں آرہی جو سلگنے والی اس سیاسی آگ کو ٹھنڈا کرسکے۔ سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے، اقتدار کے حصول کی جنگ برسوں سے جاری ہے اقتدار کی حوس نے سیا ستدانوں کو اندھا کر رکھ دیاہے۔ ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتالیکن میاںنوازشریف باصلاحیت سیاستدان ہیں جن سے عوام کوبہت سی امیدیں ہیں۔یہ بات درست ہے کہ اب ہماری قومی سیاست کا قبلہ درست کرنے کے لیے سیاستدانوں کو بالغ نظری کامظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب انہیں سابقہ سیاسی کلچر کو ختم کرکے ایک نئے اور قابل قبول سیاسی کلچر کو فروغ دیناہوگا، اقتدار کی خاطر اپنی سیاست چمکانے اور ملک کو بحرانو ں میں ڈالنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرنے کی پالیسی ترک کرناہوگی۔ موجودہ سیاسی قیادتوں میں (میاںنوازشریف کے بغیر) کسی کے پاس بھی ملک کو سنگین معاشی وسیاسی بحران سے نکالنے کا کوئی حل نہیں ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ آج بھی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا وجود اگر باقی ہے تو وہ صرف اور صرف نوازشریف کی مرہون منت ہے، نوازشریف کے بغیر مسلم لیگ (ن) کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوگی، نوازشریف گزشتہ چار سال سے لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں، میں سمجھتاہوں آج بھی پنجاب کے عوام میاں نوازشریف سے محبت کرتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں بڑی کمی نہیں آئی ۔ کیونکہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور مجھے و ہ وقت بھی اچھی طرح یاد ہے جب کراچی کی گلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں سرشام ہی ایک طرف بجلی کے بحران کی وجہ سے اندھیرے چھاجاتے تھے تو دوسری طرف دہشت گردی اور بھتہ خوری کے باعث تاجر برادری مارکیٹیں اور بازار جلدی بند کردیتے تھے۔حقیقت یہی ہے کہ افواج کے بعد نوازشریف ہی تھے جنہوں نے کراچی کا امن بحال کرا نے میں دلچسپی لی اور ملک بھر سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کئے جس کے باعث ملک بھر میںلوڈشیڈنگ میں کمی آئی اور کراچی میں امن قائم ہوا۔نوازشریف نے اپنے سابقہ ادوار میں ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کیاتھا اور وہ ایک بار پھر اقتدار میں آکر ملک کودرپیش بحرانوں سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ شاید ا سی لیے کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخرنہیںہوتی۔