میرا 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا
برطانیہ میں روچ ڈیل گرومنگ گینگ سے متاثر ایک خاتون نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں 12 سال کی عمر سے 100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا گیا اور اس دوران پولیس کا رویّہ ’مایوس کن‘ تھا۔
روبی نے دعویٰ کیا کہ پولیس ان کے اسقاط حمل کے باعث پیدا ہونے والے جنین کو ان کی اجازت کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لے گئے۔
سابق جاسوس میگی الیور نے کہا کہ روبی کے ساتھ ہونے والے ریپ اور جنسی تشدد کے واقعے کے برسوں بعد آج بھی ملک بھر میں بچوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔
روچڈیل بورو کونسل کے ترجمان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بہت معذرت خواہ ہیں‘ کہ جب روبی کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو ہم ’بچوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔‘
روبی کا کہنا ہے کہ وہ دیگر متاثرہ بچوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں تاکہ جب وہ پولیس کو اس جرم کے بارے میں بتائیں تو ’ان پر توجہ دی جائے اور انھیں سنا جائے۔‘
انھوں نے پولیس انٹرویوز کے بعد کاؤنسلنگ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جنوری میں ایک جائزہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ روچڈیل میں کم عمر لڑکیاں ایک طویل عرصے تک بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے گرومنگ گینگ کے رحم و کرم پر تھیں کیونکہ پولیس کے سینیئر افسران اس دوران مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔
اس رپورٹ میں روچڈیل میں سنہ 2004 سے 2013 کے درمیان 111 ایسے کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں پولیس کی جانب سے ناکام تحقیقات کی گئی تھیں۔ رپورٹ میں 96 ایسے افراد کی شناخت بھی کی گئی ہے جو بچوں کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
روبی کا اصل نام قانونی وجوہات کے باعث نہیں بتایا جا سکتا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ استحصال اس وقت شروع ہوا جب کچھ ادھیڑ عمر مردوں نے انھیں اور ان کی دوستوں کو ایک فلیٹ میں پارٹی پر دعوت دی۔
کچھ ہفتے تک صرف یہی ہوتا رہا لیکن پھر ایک دن فلیٹ میں ’وہ ہمیں کمرے میں نہیں جانے دے رہے تھے‘ کیونکہ اندر دیگر لوگ موجود تھے۔
’انھوں نے ہمیں ایک لیٹر کی ووڈکا کی بوتل دی اور 10 فیگز بھی۔ جب تک ہم دوسرے کمرے میں گئے تو ہم سب بہت زیادہ مدہوش تھے۔‘
روبی بتاتی ہیں کہ ’وہاں 30 سے 40 افراد میرا انتظار کر رہے تھے‘ اور انھوں وہ ’مجھے مسلسل ریپ کرتے رہے۔‘
’جب ایک (ریپ کر کے) فارغ ہوتا تو کوئی دوسرا آ جاتا اور یہ سلسلہ پوری رات چلتا رہا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ استحصال اس لیے جاری رہا کیونکہ اس گینگ نے انھیں دھمکایا اور انھیں اس وقت محسوس ہوا کہ ’اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔‘
’ان کے پاس ہمارے فون نمبرز تھے وہ سکول آتے، میرے گھر کے قریب آتے، جہاں بھی ہم جاتے وہ وہاں پہنچ جاتے اور ہمیں ڈھونڈ نکالتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں چار برس تک ’برطانیہ بھر سے‘ مختلف مردوں نے ’100 سے زیادہ مرتبہ ریپ کیا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’(گینگ) ہمیں ہر جگہ لے کر جاتا تھا۔۔۔ یہ مرد بریڈ فورڈ اور نیلسن اور برمنگھم، بلیک پول سے تعلق رکھتے تھے۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ اس وقت مجھے یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘
سنہ 2008 میں روبی سیکشوئل ہیلتھ کلینک گئیں جو ان کے لیے ’مدد کے لیے اپیل کرنے جیسا تھا کیونکہ ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم نے سکول اور سوشل سروسز کو بتایا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کیا گیا۔ اس لیے ہم اس کلینک گئے جہاں ہمیں فلیورڈ کنڈوم دے کر واپس بھیج دیا گیا۔‘
جائزہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ روبی نے اس سے قبل کرائسز انٹروینشن ٹیم کے سامنے یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کے ادھیڑ عمر بوائے فرینڈز ہیں جو انھیں ووڈکا دیتے ہیں اور ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
اسی سال انھیں چائلڈ پروٹیکشن پلان پر رکھ دیا گیا اور پولیس کو ان کی صورتحال کے بارے میں 2009 کے آغاز میں معلوم ہو چکا تھا۔
روبی نے اس وقت اسقاطِ حمل کروایا جب وہ صرف 13 برس کی تھیں اور پولیس نے جنین کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تاکہ اسے تحقیقات کا حصہ بنایا جا سکے۔
جائزہ رپورٹ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ ’یہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے‘ کہ روبی سے پولیس نے اسے لے جاتے وقت اجازت تو درکنار پوچھا بھی نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بعد میں پولیس کی جانب سے ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ اس کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتی ہیں یا نہیں۔
سنہ 2010 میں روبی نے ایک سوشل ورکر کو بتایا کہ چھ عمر رسیدہ ایشیائی مرد ان کا جنسی استحصال کر رہے ہیں۔
انھوں نے سوشل سروسز کو یہ بھی بتایا کہ 60 کے قریب مرد بچوں کا بڑے پیمانے پر استحصال کر رہے ہیں۔
دو سال بعد ان میں سے ایک مرد جس نے انھیں ریپ کیا تھا کو جنسی استحصال کے غرض سے ٹریفکنگ کرنے کے الزام میں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم صرف چار برس بعد روبی نے اس شخص کو ایک مقامی دکان پر دیکھا۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اس شخص کی رہائی کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، لیکن پھر تصدیق کرنے کے لیے میں نے غور سے دیکھا اور مجھے پتا چل گیا کہ یہ وہی ہے تو میں وہاں سے بھاگی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پھر میں گھر چلی گئی اور پھر تین ماہ تک گھر سے نہیں نکلی۔‘
روبی کہتی ہیں کہ میں نے پولیس کو کال کی ’لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میری حالت بہت بری تھی۔‘
جائزہ رپورٹ میں بچوں کے نو برس تک ہونے والے استحصال کے حوالے سے پولیس کی تحقیقات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پولیس نے اس جرم کو زیادہ ترجیح نہیں دی تھی۔
میگی اولیور سنہ 2012 میں استحصال کے کیسز کو ہینڈل کرنے میں ناکامی پر پولیس میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔ انھوں نے اس کے بعد متاثرین کے لیے ایک فاؤنڈیشن بنا دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ روچڈیل میں بچوں کا جنسی استحصال اب بھی ہو رہا ہے اور ان کی فاؤنڈیشن کو ’ملک بھر سے متاثرین‘ سے اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔
اولیور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آج کے متاثرین مجھ سے وہی باتیں کہہ رہے ہیں جو روبی اور وہ بچے مجھ سے 12 سال پہلے کہا کرتے تھے۔
’میرا خیال ہے کہ عوام کو معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ پولیس اور سوشل سروسز کا دعویٰ کہ انھوں نے سبق سیکھا ہے، محض دکھاوا ہے۔‘
روبی نے جنسی استحصال کا شکار بچوں کے لیے زیادہ مدد کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں پولیس کے انٹرویو کے بعد نفسیاتی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ ہر بچہ جو پولیس سٹیشن کا دروازہ پار کر کے جنسی استحصال کی رپورٹ کرتا ہے، اسے سنا اور سمجھا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ اس وقت بہت سے جذبات ابھر رہے ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ بچے ان جذبات کو گھر لے جائیں اور خود ہی ان کا حل نکالیں، انھیں ایک کمرے میں ایک پیشہ ور تھیراپسٹ کے ساتھ رکھا جائے، تاکہ وہ اپنے تجربے کے بارے میں بات کر سکیں۔‘